سيڪشن: شخصيات

ڪتاب: مير علي شير قانع ٺٽوي

باب:

صفحو:13 

’قانع‘ کی تاریخ گوئی:

’قانع‘ کو تاریخ گوئی میں مہارت تامہ حاصل تھی- اس نے متعدد لوگوں کی ولادت و وفات اور اہم واقعات کے بے شمار مادہ ہائے تاریخ موزوں کئے اور متعدد تاریخی قطعات کہے ہیں- تاریخ گوئی کے جملہ اضاف میں اس کے مادہ بائے تاریخ موجود ہیں- کئی تاریخی مادے اس نے قرآنی آیات سے بھی اخذ کئے ہیں- (62) اس کی تاریخ گوئی سے دلچسپی اور مہارت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنی اکثر کتابوں کے نام  تاریخی تجویز کئے ہیں- مثلا

* دیوان کا نام                   "قال غم"              (1171ھ)

* مثنوی قضا و قدر کا تاریخی نام               "گل از بہار قضا" (1167ھ)

* مکلی نامہ کا تاریخی نام                    "بوستان بہار تازہ دل"     (1174ھ)

* تذکرہ شعراء                  "مقالات الشعراء"        (1174ھ)

* تاریخ کی معروف کتاب         "تحفۃ الکرام"    (1180ھ)

* زیر تحقیق تذکرہ صوفیہ کا نام              "معیار سالکان طریقت" (1202ھ) وغیر ھم

بحیثیت مورخ:

’قانع‘ اپنے عہد کا بہت بڑا مورخ ہے- اس نے اسلامی تاریخ، عمومی تاریخ اور سندھ کی تاریخ پر ایک بالغ نظر اور آزاد فکر مورخ کی حیثیت سے کام کیا ہے- اسے اس کے عہد  کے حکمران میاں غلام شاہ کلہوڑہ نے اپنے خاندان کی تاریخ مرتب کرنے پر مامور کیا تھا اور طے یہ پایا تھا کہ شاہنامہ فردوسی کی طرز پر منظوم اور پھر نثر میں بھی "تاریخ عباسیہ" لکھی جائے گی- لیکن تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ’قانع‘ نے یہ شاہی "خدمت" ترک کردی تھی اور 1180ھ میں اپنے طور پر ایک آزاد مورخ کی حیثیت سے اس نے"تحفۃ الکرام" لکھنا شروع کی-

’قانع‘ کی تاریخ سے متعلق دیگر تصانیف سے قطع نظر "تحفۃ الکرام" اور ٹھٹھہ کی تاریخ کے حوالے سے "مکلی نامہ" (63) ہی ایسی یاد گاریں ہیں جو اپنے اپنے موضوع پر سند کا درجہ رکھتی ہیں-

تحفۃ الکرام کی  تیسری جلد سندھ سے متعلق ہے- اس میں ابتدا سے لے کر میاں سرفراز کلہوڑہ کے عہد حکومت تک سندھ کی تاریخ کے علاوہ جو جغرافیائی حالات بیان کئے گئے ہیں وہ کسی "گزیٹئر" سے کم نہیں ہیں- حیرت ہوتی ہے کہ ٹھٹھہ میں بیٹھ کر اس دور میں جبکہ ذرائع آمدو رفت نہ ہونے کے برابر تھے تو قانع نے سندھ کے ہر پرگنہ، شہر، قصبہ اور دیہات کا ذکر کیا ہے اور وہاں کے تاریخی آثار، مقامات اور مشاہیر علماء صوفیہ، شعراء اور دیگر اہم طبقات و افراد کا ذکرکیا ہے- گویا سندھ کی تاریخ پر یہ ایک ایسا انسائیکلوپیڈیا ہے جس سے کوئی اہل علم مستغنی نہین ہوسکتا-

تذکرہ نگار:

بحیثیت تذکرہ نگار  اس کا مقام بہت بلند ہے- اس نے تذکرہ نگاری کے سلسلے میں جو خدمات انجام دی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں- اس کی دیگر کتب تذکرہ سے قطع نظر شعراء کے احوال پر "مقالات الشعراء" اور صوفیہ اور صلحاء کے احوال پر "معیار سالکان طریقت" کی حیثیت سنگ میل کی سی ہے- مقالات الشعراء کو مرحوم سید حسام الدین راشدی نے ایڈٹ کرکے سندہی ادبی بورڈ (کراچی) سے 1957ع میں شائع کیا تھا- اس میں 719 فارسی گو شعراء کا تذکرہ ہے-

’قانع‘ ایک باعلم صوفی:

قانع ایک بلند پایہ عالم باعمل اور صوفی باصفا تھا- اس کے علمی مقام اور مرتبہ کی مظہر اس کی وہ تمام تصانیف ہیں جو اس نے یادگار چھوڑی ہیں اور اس کے عظیم صوفی ہونے پر اس کی پوری زندگی شاہد ہے کہ اس نے کس طرح دنیوی طمع و لالچ اور حرص و آز سے مستغنی ہو کر پوری زندگی علم و ادب کی خدمت میں بسر کردی- اس نے کشت علم و دانش کی آبیاری کے کئے شاہی ملازمت تک ترک کردی تھی اور بارہ سال کی عمر سے لے کر زندگی کے آخری لمحوں تک قرطاس و قلم سے  اس کا رشتہ قائم رہا، یا پھر وہ تزکیہ باطن اور ریاضت و مجاہدہ میں مصروف رہا- اس کا صوفیائے کرام سے قلبی، ذہنی، فکری اور روحانی ارتباط اس کے اخلاق عمل کا مظہر ہے- وہ خود نقشبندی سلسلہ طریقت سے وابستہ تھا، اور اہل بیت، صحابہ کرام اور صوفیائے عظام سے دلی محبت اور عقیدت رکھتا تھا- اس نے زندگی کے آخری سال (1202ھ) میں جو تین کتابیں (64) لکھیں وہ اس کے اسی حسن عقیدہ کی ترجماں ہیں، لیکن اس سے قبل 1187ھ میں ’قانع ‘نے ایک مثنوی "ختم السلوک" کے نام سے لکھی، جس کے مندرجات سے اس کے علم تصوف، صوفیانہ اصطلاحات اور راہ سلوک سے آگاہی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، لیکن اس کتاب میں شامل بعض موضوع ایسے بھی ہیں جو اس کے جذب و کیف کی نمائندگی کرتے ہیں- اس کتاب میں ایک مقدمہ 21 مقالات اور خاتمہ ہے- اس کا ایک قلمی نسخہ سندھی ادبی بورڈ جامشورو میں محفوظ ہے- ہم یہاں اس مثنوی کے عنوانات اور مشمولات تحریر کئے دیتے ہیں تاکہ مصنف کی روحانی، عرفانی اور صوفیانہ بصیرت کی ایک جھلک دیکھی جا سکے-

مقدمہ: دربیان علم قیام:

1- مقالہ دربیان معرفت حق سبحانہ: در آنکہ صحت عقل و رویت آیہ سبب معرفت است نہ علت معرفت، اقوال شیخ، در معنی معرفت، درخلاف نفس کہ علم بان علم بحق است، کیفیت ہای ارتباط نفس بمعرفت الاھی، معرفت روح، وصف روح اعظم، دربیاں آنکہ آدم مظہر روح کلی است- 

2- مقالہ دربیان توحید باری: اقوال شیخ،  توحید ایمانی، توحید علمی، توحید حالی، توحیدالہیٰ-

3- مقالہ دربیان تصوف: وجہ تسمیہ، تلقین، لقب صوفی، معنی  صوفی و  متصوف، اقوال شیخ دروصف صوفی و متصوف-

4- مقالہ دربیان فقر: فقر وغنا، جواب و سوال ابن عطار وجنید، اقوال شیخ، تقسیم محققان فقر-

5- مقالہ دربیان توبہ : معنی توبہ و اقسام آن و خصوصیت، اختلاف اقوال شیخ در وصف و صحت آن، احوال و مقامات وارکان توبہ، چہار مقام توبہ، پنج ارکان توبہ، نتائج توبہ و درجات آن-

6- مقالہ دربیان توکل: مواضح اطلاق توکل، اقسام رزق، غلوتوکل و متوکلان-

7- مقالہ دربیان صبر: انواع متعلق صبر، انواع صبر، اقوال شیخ-

8- مقالہ دربیان شکر: مواضع شکر، اختلاف شیخ، معنی شکر، انواع شکر، تبیین قسم نعمت، و دو قسم شاکران-

9- مقالہ دربیان رضا: حقیقت رضا  و قسمین آن، اقسام راضیان-

10- مقالہ دریبان حال و مقام: فرق بین الحال و المقام، اختلاف در دوام حال-

11- مقالہ در خوف و رجا: بیان قسمین خوف و وصف ہریک، وصف رجا  و ارتباط آن بخوف-

12-مقالہ در بیان جمع و تفرقہ تفصیل جمع بر تفرقہ

13-مقالہ در سکر والصحو: تبیین مقامات واحدین، اختلاف در فضل سکر و صحو-

14- مقالہ فی الفناو البقا تبیین اقوال دران-

15- مقالہ  در بیان غیب و شہود-

16- مقالہ دربیان تجلی-

17- مقالہ در بیان محبت-

18-مقالہ در بیان سماع وما یتعلق بہ: اباحت سماع شعر، اباحت اصوات، فواید چند مخصوصہ، اقوال شیخ، مراتب اہل سماع فی الوجد والوجود، اختلاف شیخ در رقص وپاکوبی، خرق خرقہ، آداب سماع-

19- مقالہ در لبس خرقہ

20- مقالہ دربیان اختلاف احوال مردمان وعدد اقسام آن و تبیین مشتبہان-

21- مقالہ دربیاں اہل ولایت-

خاتمہ: متضمن تاریخ اختتام (65)

مصنف کا ذریعہ معاش:

میر علی شیر ’قانع‘ کا خاندان اپنے آباءو اجداد سے ہی علمی و ادبی طور پر معروف چلا آرہا تھا اور اس خاندان کے لوگ اپنے علمی، ادبی اور روحانی کارنامون کے باعث نہ صرف معاشرے میں، بلکہ اہل حکومت کی نظرون میں بھی ارفع مقام رکھتے تھے اور اپنی انہی علمی سرگرمیوں کے باعث اپنے اپنے عہد میں حکمرانون سے داد تحسین کے طور پر جاگیرین، خلعتین، وظائف اور انعامات پاتے رہے- چنانچہ سید شکر اللہ شیرازی سے لے کر قانع تک سلسلہ بہ سلسلہ تمام بزرگون پر یہ نوازشات ہوتی رہیں اور نسل در نسل وہ جاگیرین اور جائیداد آگے منتقل ہوتی رہیں- "تحفۃ الکرام" کے اردو مترجم مخدوم امیر احمد نے اپنے مقدمہ میں اس خاندان سے متعلق فرامین، دستاویزات اور دیگر کئی قلمی تحریرون اور یاد داشتون کے ذریعے اس اجمال کی کافی تفصیل دی ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ خاندان مالی اور معاشی طور پر خاصا متحکم تھا- ہم طوالت اور تکرار سے بچنے کے لئے صرف میرعلی شیر ’قانع‘ کے بارے میں یہ بتانے پر اکتفا کریں گے کہ اسے اپنے آباء و اجداد سے جو جاگیر اور جائیداد ملی، اس کے علاوہ اسے کلہوڑہ عہد میں اور پہر تالپور دور میں وظیفہ بھی ملتا رہا جو اس کی گزر اوقات کے لئے کافی تھا- یہ وظیفہ جو اس کے والد کے زمانے سے اس خاندان کومل رہا تھا وہ قانع کی وفات کے بعد اس کے بیٹے میر غلام علی ’مائل‘ کو بھی ملتا رہا- (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو، مقدمہ تحفۃ الکرام اردو، ص 29 تا 34)

’قانع‘ کچھ عرصہ میاں غلام شاہ کلہوڑہ کی دعوت پر خدا آباد بھی چلاگیا تھا، جہان اسے نظم و نثرمیں خاندان عباسیہ کی تاریخ لکھنے پر مامور کیا گیا تھا- مگر وہ اس کام کو نامکمل چھوڑ کر واپس ٹھٹھہ آگیا تھا- اس نے یہ کام نامکمل کیوں چھوڑا اس کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی- تاہم کلہوڑوں نے اس کے باوجود اس کا وظیفہ بدستور جاری رکھا- اور ’قانع‘ نے بھی تحفۃ الکرام میں کلہوڑوں کے احوال "حق نمک" ادا کرنے کے لئے خاص اہتمام سے لکھے ہیں- چنانچہ وہ لکھتا ہے:

"ذکر شان در طبقہ علیحدہ ثبت می گردد و بنا بر مزید فائدہ و ادای حقوق نمک ذکر از اصل مع مجمل بیان بزرگان این سلسلہ گذارش میکند" (66)

چنانچہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ میرعلی شیر ’قانع‘ اور کلہوڑوں کے باہمی روابط بدستور قائم رہے- اور کلہوڑوں کے بعد تالپوروں نے بھی اس کی علمی رفعت کے پیش نظر اس کی جاگیریں اور وظائف بحال رکھے، جس سے اس کی زندگی انتہائی اطمینان اور راحت سے گذری- اوریوں وہ فکر معاش سے آزاد ہو کر  علمی و تحقیقی کاموں میں مشغول رہا-

اولاد:

’قانع‘ کے تین بیٹون کے نام ملتے ہیں، جو یہ ہیں:

* میر امیر علی: یہ اپنے بھائیون میں سب سے چھوٹا تھا جوکہ 1171ھ میں پیدا ہوا- اس کی تاریخ ولادت میاں غلام محمد ٹھٹھوی نے اس طرح کہی "در چمن جاہ شگفتہ گلی" (67): 1171ھ اور محمد پناہ ’رجا‘نے یہ سجع کہا جو مادہ تاریخ ولادت بھی ہے- "امیر علی بن علی شیر حسینی" (68): 1171ھ۔

* غلام علی: یہ تاریخی ہجری نام ہے- گویا اس کی ولادت 1161ھ میں ہوتی- قانع کی اولاد میں سے اس بیٹے نے باپ کے علمی و ادبی کام کو جاری رکھا- ’مائل‘ تخلص کرتا تھا- شاعر بہت عمدہ تھا- 1222ھ تک میر غلام علی خان تالپور کے دربار سے وابستہ رہا- 1227ھ میں میر کرم علی خان کی تخت نشینی پر اس سے متوسل ہوگیا اور اس کی مدح میں بہت سے قصیدے بھی لکھے- تاریخی قطعات بھی بہت لکھے- 19 ذوالحجہ 1251ھ کو فوت ہوگیا- (69)

غلام ولی اللہ: یہ ’قانع‘ کا دوسرا فرزند ہے جو کہ 1163ھ میں پیدا ہوا- اس کا نام بھی تاریخی رکھا گیا جس سے 1163 اعداد بر آمد ہوتے ہیں- (70)

’قانع‘ کی وفات:

میرعلی شیر ’قانع‘ شیرازی ٹھٹھوی نے اپنی آخری تصنیف "معیار سالکان  طریقت" کے مقدمہ میں اپنی عمر 63 سال بتائی ہے اور اس وقت مختلف امراض اور نقاہت کا ذکر بھی کیا  ہے- اس وقت اسے یہ احساس ہوچکا تھا کہ یہ اس کی آخری کتاب ہوگی- چنانچہ اس کایہ احساس صحیح ثابت ہوا، اور وہ اس سے اگلے سال یعنی 1203ھ/ 89- 1788ء (71) میں 64 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملا-

اِنا للہ واِناالیہ راجعون!

آخوند غلام محمد ٹھٹھوی نے یہ مادہ تاریخ وفات تجویز کیا: "علیہ الرضوان" (72)

قطعہ تاریخ وفات قانع از مصحح

آنکہ ذکر اہل حق را می نوشت

آہ رحلت کرد، آن نیکو سرشت

سال رحلت مرد قانع را بگو

ای خضر "قانع سزاوار بہشت"

(= 1203ھ)

حواشی

1-   رک: مقالات الشعراء: 571

2-  ملاحظہ ہو مقدمہ تحفۃ الکرام اردو از مترجم مخدوم امیر احمد، ص 15

3-   رک: مقالات الشعراء: 817

4-  ایضاً: 358

5-   رک: معیار دوازدہم ص 683 و مقالات الشعراء ص 339

6-   ملاحظہ ہو مقالات الشعراء ص 114

7-   رک: معیار سالکان طریقت ص 653

8-  رک: مقدمہ تحفۃ الکرام (اردو) ص 81

9-  رک : ایضاً

10-         ملاحظہ ہو مقدمہ مقالات الشعراء از سید حسام الدین راشدی، ص 4

11-        مقالات الشعراء کے ان صفحات پر اس کے اشعار کی تفصیل موجود ہے- 48، 49، 62، 209، 254، 766 ، 850

12-         رک: مقالات الشعراء ص 572

13-        رک: مقدمہ تحفۃ الکرام، نیز کتاب کا نام بھی تاریخی تالیف 1180ھ ظاہر کرتا ہے-

14-         رک: مقدمہ مصنف معیار سالکان طریقت، ص 3

15-         رک : مقدمہ مقالات الشعراء- ص پانزدہ، اور تحفۃ الکرام (اردو) کے مقدمہ ص 69 پر اس کتاب کا سال تصنیف 1196 لکھا ہے- جبکہ "ختم السلوک" کے اعداد 1187 برآمد ہوتے ہیں چنانچہ اگر کتاب کا نام تاریخی ہے تو سال تصنیف بھی 1187ھ قرار پائے گا-

16-        "طومار  سلاسل گزیدہ" کے بارے میں بھی مقالات الشعراء کے مصحح اور مقدمہ نگارنے لکھا ہے، کہ یہ تاریخی نام ہے اور اسی سے تحفۃ الکرام کے اردو  مترجم نے بات نقل کی ہے، لیکن اس کے اعداد 483 ہیں جبکہ اس کتاب کا سال تصنیف 1202ھ ہے جیسا کہ خود ’قانع‘ نے معیار سالکان طریقت کے مقدمہ  میں لکھا ہے-

17-         مذکورہ بالا صورت حال اس کتاب کے بارے میں بھی ہے کہ سید حسام الدین راشدی اور مخدوم امیر احمد نے اس کتاب کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ اس کا نام تاریخی ہے لیکن شجرہ اطہر اہل بیت کے اعداد 1171 بنتے ہیں- تاہم اگر اس کتاب کا نام شجرہ اطہر اہل البیت لکھا جائے تو مطلوبہ سال 1202ھ بن سکتا ہے جو کہ اس کی اصل تاریخ تالیف ہے-

18-         رک: مقدمہ مقالات الشعراء ص بیست و دو

19-         رک: تحفۃ الکرام: 444

20-        رک: منشور الوصیت از میاں نورمحمد کلہوڑہ بہ تصحیح پیر حسام الدین راشدی، حیدرآباد، 1964، ص 14

21-         میاں نور محمد کلہوڑہ اور اس کے آباء واجداد کے بارے میں مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو "تحفۃ الکرام" ص 429 تا 444- نیز ملاحظہ ہو مولانا غلام رسول مہر کی کتاب "تاریخ سندھ" عہد کلہوڑہ

22-        رک: کلیات سرفراز بہ تصحیح خضر نوشاہی مطبوعہ کراچی 1996ء میں شامل کلہوڑہ حکمرانون کے فرامین اور مواہیر

23-         رک: تحفۃ الکرام: 460

24-         رک: تاریخ سندھ (مہر) جلد 6 حصہ دوم، ص 575

25-        رک: مقالات الشعراء 408

26-         رک: تحفۃ الکرام:465

27-        ایضاً 472 (حاشیہ)

28-         رک: کلیات سرفراز ص 162

29-         رک: تحفۃ الکرام: 476 ( حاشیہ)

30-         سرفراز کا فارسی دیوان اور اس کا دیگر فارسی کلام مثنویات و قطعات وغیرہ  اور اس کا سندھی اور اردو کلام  راقم الحروف نے "کلیات سرفراز" کے نام سے مرتب کیا ہے جو ستمبر 1996ء میں کلہوڑہ سیمینار کمیٹی کراچی نے شائع کیا ہے-

31-        رک: مثنویات و قصائد قانع: مرتبہ سید حسام الدیں راشدی، مطبوعہ حیدرآباد، 1961ع ص 190- نیز دیکھئے راقم الحروف کا مقدمہ بر کلیات سرفراز

32-         برائے تفصیل رک: تاریخ بلوچی از عبدالمجید جو کھیہ مترجم سید خضر نوشاہی، کراچی 1996ع

33-        رک: مثنویات و قصاید قانع: ص 218

34-        رک: تاریخ بلوچی: ص 34

35-         برائے تفصیل رک: تاریخ بلوچی، جو کہ اسی عہد سے متعلق ہے-

36-         رک: مقدمہ مقالات الشعراء، ص بیست وچہار

37-         رک: ترقیمہ کاتب "معیار سالکان طریقت"

38-         رک : تحفۃ الکرام (اردو): 359

39-        رک: ملاحظہ ہو معیار دوم ص 86

40-         ملاخطہ ہو تحفۃ الکرام (اردو) جس میں  ’قانع‘ نے سندھ کے ہر شہر، ہرپرگنہ، ہر قصبہ اور ہر گاون کے اہل علم و فضل اور صاحبان حکمت و دانش کا ذکر بڑے اہتمام سے کیا ہے-

41-         رک : تاریخ سندھ (مہر): 997 بحوالہ ہملٹن/ سندھ کے اقتصاسی حالات، ص 134

42-        رک: ایضا: 924

43-         رک: تاریخ بلوچی ص 34

44-         ایضا

45-        رک: معیار دوازدھم ص 679، 680

46-        شاہ فقیر اللہ علوی کے احوال کے لئے ملاحظہ ہو معیار دوازدھم ص 679

47-         اعجاز الحق قدوسی: تذکرہ صوفیائے سندھ، کراچی، 1975ع ص 190

48-         رک: معیار دواز دھم :653

49-        رک: تحفۃ الکرام (اردو): 631

50-         ایضا:  695

51-         تذکرہ صوفیائے سندھ: 171

52-         ایضا 166 بحوالہ تحفۃ الکرام (سندھی) فٹ نوٹ سندھی مترجم مخدوم امیر احمد

53-         خلیل، مخدوم ابراہیم، تکملہ مقالات الشعراء بہ تصحیح سید حسام الدین راشدی، کراچی، 1958ء ص 44

54-         رک:  تاریخ بلوچی ص 31

55-        رک: مقدمہ مقالات الشعراء ص ہفت

56-         ملاحظہ ہو مقالات الشعراء: 572

57-         رک: مقالات الشعراء ص 886 تا 893

58-         غلام علی ’مداح‘، سندھ کے معروف شاعر محمد محسن کا بیٹا تھا- ’قانع‘ کا دوست تھا- اس کے تفصیلی احوال کے لئے دیکھئے: مثنوی گوہر منظوم (فارسی) مع انگریزی مقدمہ خضر نوشاہی- جو ایک مقالے کی شکل میں پاکستان ہسٹاریکل جرنل (انگریزی) کے شمارہ 2، جلد  XLI بابت اپریل 1993ء میں شائع ہو چکی ہے-

59-        شیوک رام ’عطارد‘، سندھ کے حکمران میاں سرفراز کلہوڑہ کا میر منشی تھا اور ’قانع‘  کا بہت دوست تھا، اس کی "انشائے عطارد" معروف ہے- راقم الحروف نے اس کا فارسی کلام بعنوان"دیوان عطارد" مرتب کردیا ہے جو ہنوز غیر مطبوعہ- اس کے حالات کے لئے ملاحظہ ہو "مقالات الشعراء": 446 اور راقم الحروف کا مقدمہ کلیات سرفراز 

60-         رک: مقالات الشعراء: 886

61-        ایضا: 888

62-         ایضا ص 641، 642، ملاحظہ ہو جہاں اس نے قرآنی مادہ ہائے تاریخ تحریر کئے ہیں-

63-         مکلی نامہ، سید حسام الدین راشدی کی تصحیح، مقدمہ اور مفصل حواشی و تعلیقات کے ساتھ شائع ہوچکی ہے-

64-        طومار سلاسل گزیدہ، شجرہ اطہر اہل  بیت اور معیار سالکان طریقت، یہ تین کتابیں اس نے  1202ھ میں لکھیں-

65-         یہ تمام تفصیل مقدمہ مقالات الشعراء صفحہ پانزدھم سے لی گئی ہے-

66-         رک: تحفۃ الکرام: 386

67-         مقالات الشعراء: 473

68-        ایضاً

69-        رک: تکملہ مقالات الشعراء: 542 (حاشیہ) میر غلام علی ’مائل‘ کے تفصیلی احوال کے لئے تکملہ مقالات الشعراء کے علاوہ ملاحظہ ہو، ڈاکٹر ظہورالدین احمد کی کتاب "پاکستان میں فارسی ادب" ج 3، ص 731

70-        پیر حسام الدین راشدی نے مقدمہ مقالات الشعراء صفحہ بیست و شش پر "غلام ولی اللہ" کا سال تولد 1184ھ لکھا ہے اور بتایا ہے کہ یہ تاریخی نام ہے- اگر یہ تاریخی نام ہے تو اس کے اعداد 1183 بر آمد ہوتے ہیں- اسی طرح تحفۃ الکرام (اردو) کے مقدمہ (صفحہ 83) میں مترجم نے "غلام علی) کا سال ولادت 1161ھ اور غلام ولی اللہ کا سال ولادت 1163ھ لکھا ہے- جبکہ دونوں بھائیوں کے ناموں سے ہی ان کا سال ولادت معلوم کیا جاسکتا ہے جو کہ علی الترتیب 1181ھ اور 1183ھ ہے-

71-        رک: مقدمہ مقالات الشعراء ص بیست وچہار، اور مقدمہ تحفۃ الکرام (اردو) ص 86

72-        رک: مقدمہ تحفۃ الکرام (اردو): 86، اس کے ساتھ ہی ’قانع‘ کے بیٹے میر غلام علی ’مائل‘ کا موزوں کردہ بھی ایک مادہ تاریخ وفات لکھا ہوا ہے جو کہ یہ ہے- "البشرہ بالجنہ النعیم ابدا" لیکن اس کے اعداد 1233 بنتے ہیں، جبکہ ’قانع‘ کا سال وفات 1203ھ ہے-

]میر علی شیر ’قانع‘ "معیار سالکان طریقت " فارسی، مرتب: ڈاکٹر سید خضر نوشاھی، ادارہ معارف نوشاھیہ، ساہن پال، منڈی بھاوالدین پنجاب، 2000ء[


 

 

میر علی شیر ’قانع‘ تتوی

سيد حسام الدين راشدي

 

مير علی شير ’قانع‘ ملف مقالات الشعراء اکثر احوال خود و خاندان خويش(1) را درين کتاب نوشته است (ر-ک- 531- 646) و ازان پديد می آيد که مير علی شير بيک شعبه سندهی خاندان بزرگ علمی و دينی شيراز تعلق داشت، که بعد از تشريف آوري قاضی سيد شکرالله شيرازی درتته اقامت داشته و  افراد آن افزون شده اند- اين دودمان تا مدت چهار قرن مصدر بسا کارنامهای علمي و ادبی درينجا بوده و بترويج- علوم ديني پرداخته اند که غير از مير علی شير بسا ناموران ديگر نيز از آغوش اين دود مان نجيب برخاسته اند.

نام کامل این مولف غلام علی شير، و سلسلہء نسبش بہ قاضی سید شکراللہ میرسد، کہ در عھد شاہ بیگ ارغون (927- 928ء) از شیرازبہ سند آمد، و سلسلہء نسبش چنین است:

غلام علی شير- بن مير عزت الله (متوفی 1161ھ)- بن مير محمد کاظم- بن مير محمد مقيم- بن مير ظهيرالدين (ثانی، متوفی 1037ھ) – بن سيدشکر الله (ثانی)- بن مير ظهير الدين (اول)- بن قاضي سيد شکر الله (اول)(2) نزيلِ سند (متوفي قبل سنه 962ھ) (ر- ک- 531- 533)

پدر مولف مير عزت الله شش فرزندداشت؛ 1- سيد فخرالدين. 2- سيد يار محمد(1). 3- سيد محمد امين. 4- سيد محمد صلاح. 5- سيد ضياءُ الدين ضيا(2) 6 مير غلام علی شير ’قانع‘ که، درسنه 114ھ بدنيا آمد، واز- ”خلق انسانا من السلالہ “- تاريخ ولادت اوبر می آيد.

مير علی شير در شهر تته از علمای جيدِ عصر خود درس خواند که در ”مقالات“ نام اين چند نفر را می برد: ميان نعمت الله (ص- 817)، ميان محمد صادق (ص 359)، پسرانِ ميان عبدالجليل تتوی. و اخوند محمد شفيع تتوی (ص 339). اخوند ابوالحسن ”بی تکلف“ تتوی (ص 114). و ميرزا محمد جعفر شيرازی (ص 150).

وی از عصر طالب علمی با شعرو سخن ذوقی داشت، و درسن دوازده سالگي بسال (1152ھ) بشعر گفتن آغاز کرد (ص 571) و ديوان اشعار مشتمل بر هشت هزار بيت ترتيب داد، ولی اين ديوان رابنا بر وجوهی بدريا افگند.

درحدود ( 1155ھ) باز قريحه وی بشاعری پرداخت و ملاقات مير حيدرالدين ابوتراب ”کامل“ (ص 670) او را بوجد وشور آورد، و در شاعری تلمذ اين استاد رابر گزيد (ص 57)- دراوائل ”مظهری“ تخلص می یکرد، ولی بعداً ’قانع‘ را پسنديد و تا آخر عمر بدين تخلص مشهور ماند.

دودمان وي در ادوار مختلفه همواره معزز  بوديد و بفراغ بال زندگی ميکردند و حکومتهای هر عصر بافراد اين دودمان مجموعاً و بافرداً وظايف و ادرار خاصی را ميدادند، استاد رسمی و فرامين شاهان سند که نزد من موجود است، اين مطلب را بخوبي روشن می سازد.(3)

در عصر میاں غلام شاہ کلھوڑہ والی سندھ (1170-1186ھ) ’قانع‘ بوظیفہ تاریخ نویسی این خاندان درسنہ 1175ھ گماشتہ شدہ بود (ص 572) وی مطابق بامر شاھی بنوشتن دو تاریخ دست زد: یکی در نظم بر وزن شاھنامہ و دیگر در نثر۔ ولی روشن نیست کہ بچہ سبب نوشتن این دو کتاب را تکمیل نہ کرد و غالباً بعد ازیک دو سال این ملازمت را ترک کردہ و واپس بہ تتہ آمد زیرا در سنہ 1180ھ اورا در تتہ بنوشتن تحفۃ الکرام سرگرم می یا بیم۔

از شرح حاليکه خود وی نوشته پديد می آيد که در تمام ايام زندگی خود، جز سفر سورت و کچھ و احمد آباد و جونا گرهه بهيچ طرفی نرفته ( صه 48- 49 – 62- 209- 254- 454- 766- 850) و اوقات خود را درتته گذرانيده و بتصنيف و تاليف مشغول بوده است. از عمر دوازده سالگي سنه (1152) تا وقت وفات 1203 هه همواره قلم وی بنوشتن پرداختہ، و درين مدت طويل، برای سندہ يک گنجينه لازوالِ علم و ادب را بارث گذاشته است، که اگر اکنون اين ذخيرهء گرانبها نزد ما نبودی همانا از حصه بزرگ تاريخ ملکي وسياسي محروم می بوديم و شرح حال بسا رجال معروف و دانشمندان نظم و نثر فارسي را نمی دانستيم.

مير مرد کثير التصانيف است که از تمام آثار وي خبري نداريم و روزگار اکثر آنرا از دست ما ربوده، ولی از مطالعه مقالات الشعراء و فهرست کتب خانه تتد (موزه برطانيه نمبر (O.R- 20 73 (1) و ديگر منابع (2) ويا کتبي که ازو ديده ايم پديد مي آيد که عدد آن به (43) ميرسد و علاوه ازين برخي از تاليفات وی نامکمل مانده است خود وي مي نويسد:

”اکثر مسودات بهر جا که ماندند ماندند“ (صه 572) درسنه 1152هه بدست خود ديوان اشعارش را که عبارت از هشت هزار بيت بود بدريا انداخت و درسنه 1174هه وقتی که ”مقالات الشعراء“ رامی نوشت خودش گويد، اگر اشعار خويش را فراھم می آوردم، مقدار آن تا سی ہزار بیت می رسید:

"الی الحال 1174ھ اگر بجمع شعر می پرداخت تا  سی ہزار بیت کما بیش رسیدہ می بود، اما

اغلب طبع برین نبودہ، اکثر مسودات بہر جا کہ ماندند ماندند" ( صہ 572)۔

بھر حال اکنون بما روشن نیست کہ چہ قدر مسودات آثار وی مکمل یا نامکمل بودہ یا ضائع گشتہ است۔ اما آنچہ تا کنون راجع بتالیفات وی معلومات داریم چنین است:

1- دیوان علی شیر: (1152ھ) بعمر دوازدہ سالگی ہشت  ھزار بیت اشعار خود را فراہم آوردہ بود، ولی آنرا  بدریا انداخت۔

2- مثنوی شمہء از قدرت حق: (1165ھ) این نام تاریخی کتاب ست و ازان تاریخ تالیف آن برمی آید، ولی نسخہ آن باقی نماندہ، فقط نمونہ چند بیت آن در مقالات (صہ 584) آمدہ است۔

3- مثنوی قضا و قدر: (1167ھ) کہ تاریخ تالیف آن از کلماتِ "گل از بھار قضا" بر می آید و بخواھش آقا رضا نگھت شیرازی تالیف کردہ است (صہ 819) یک نسخہ خطی آن در بورد ادبی سندھی موجود و اقتباس برخی از اشعار آن در (صہ 578) این کتاب آمدہ، کہ جملہ (333) بیت است- این کتاب را ’قانع‘ بتتبع "مثنوی قضا و قدر" محمد قلی سلیم نظم کردہ است، شعر اول آن:

شنیدم روزی از آزاد مردی

بپای بیخودی صحرا نوردی

بیت آخرین آن:

سخن کوتہ، ملالی بر میفزای

بیا ’قانع‘ قلم را مان برجای

4- نو آئینِ خیالات: (1169ھ) ازین نام نیز سال تاریخ تالیف بر می آید- و میر گوید کہ در نثر بود (صہ 572) جز چند فقرہ آن کہ در مقالات نقل اقتادہ ( صہ 643- 644- 645) دیگر اثری ازین کتاب موجود نیست- و نسخہ آن دیدہ نشدہ۔

5- مثنوی قصہ کامروپ: (1169ھ) دارای سہ ہزار بیت کہ نسخہ ای ازان اکنون موجود نیست و نمونہ اشعار آن در مقالات (صہ 573) آمدہ۔

6 –دیوان قال غم: (1171ھ) ازین نام نیز سنہ تالیف آن برمی آید و  تا نہ ھزار بیت غزل ، قصیدہ، مخمس، ترجیع وغیرہ میرسید، ولی نسخہ آن موجود نیست۔

7 ساقی نامہ: (1174ھ) کہ نسخہ کامل آن دردست نیست۔ اقتباس آن در مقالات (585) آمدہ است۔

8- واقعات حضرت شاہ: (1174ھ) دارای یک ہزار بیت کہ نسخہ آن باقی نماندہ و اقتباس آن در مقالات موجود است (صہ 586)۔

9- چھارمنزلہ: (1174ھ) کہ حاوی یک ہزار بیت مثنوی بود ولی دردست نیست و اقتباس آن در مقالات دیدہ می شود (صہ 585)۔

10- تزویج نامہء حسن و عشق: (1174ھ) نسخہء این کتاب نیز نماندہ و بنثر بودہ است۔

11- اشعار متفرقہ در صنایع و تاریخ: ( 1174ھ) نسخہ آن باقی نماندہ و شامل ہزار بیت بود و ذکری ازان در مقالات آمدہ (صہ 572)۔

12- بوستان بہار: معروف بہ مکلی نامہ: (1174ھ) کہ تاریخ تالیف آن از کلمات "بوستان بہار تازہ دل" بر می آید، رسالہ کوچکی است، بہ نظم و نثر مسجع، راجع بمقابر قبرستان مکلی، کہ نسخہ خطی خود مولف در بورد ادبی سندھی محفوظ است و راقم الحروف آنرا باحواشی لازمہ در مجلہ مہران سال 1956ع شمارہ 2 نشر کردہ است۔

13- مقالات الشعراء: (1174ھ) تفصیل آن در پایان این مبحث می آید۔

14- تاریخ عباسیہ: (1175ھ) بامرمیان غلام شاہ کلہورہ والی سند در تاریخ دود مان کلہورہ نوشتہ شدہ، ولی نامکمل ماندہ است و ازان نسخہ ای نداریم۔ در فھارس سابق الذکر کتب خانھای تتہ (موزہ برطانیہ  (O.R. 20 73 چنین می نویسند:

"تاریخ عباسیہ: اعنی در بیان مياں صاحبان کلہورہ از ابتد ای آمد شان  در سندہ، ھم تحقیقات نسب اوشان و تقرر زمینداری آن فرقہ درسندہ و بدست رسیدن بانھا حکومت سندہ و احوال و واقعات آن ایام، علی شیر قانع دوحصہ، در نظم و نثر تالیف  و تصنیف کردہ، و مسودہء ناتمام از ہر دو در کتاب خانہ(1)   موجود، نسخہء نظم قریب بیست ھزار ابیات۔"

15- تاریخ عباسیہ (نظم): (1175ھ) از اقتباس فوق واضح می شود، کہ این کتاب نیز ناتمام ماندہ، تا 20 ہزار بیت داشت۔ چون میر احوال مفصل کلہوریان رادرین دوجلد کتاب نوشتہ است، بنا بران در تحفتہ الکرام جلد سوم در شرح حال حکمرانان سند،  بذکر مجمل والیان کلہورہ می پردازد و گوید:

"ذکر شان در طبقہ علٰحدہ میگردد، و بنا بر

مزید فائدہ و ادای حقوق نمک ذکر از اصل مع

بیان بزرگان این سلسلہ مجملا گذارش میکند" (1)۔

16- تحفۃ الکرام: درسہ جلد (1181ھ) تاریخ عمومی و مخصوصا مشتمل بر احوال سند،  کتاب بسیار مھم میر است:

جلد اول: مشتمل بر احوال انبیاء، اوصیاء، حکماء۔ خلفاء وسلاطین  اسلام۔ نسخہ متداول کنونی کہ چاپ شدہ، در حقیقت جلد اول آن خود از کتاب تحفۃ الکرام نیست، بلکہ 86 صفحہ ابتدائی جلد دوم 'مراۃ احمدی' است، در سنہ 1307 ھ نسخہ "مراۃ احمدی" در  مطبع فتح الکریم بمبئی چاپ شدہ، کہ ہمین صفحات دران نیز موجود است، و ارباب مطبع مذکور بر ہمان صفحات، جلد اول تحفتہ الکرام را نوشتہ وبا جلد دوم وسوم آن ضمیمہ کردہ اند۔

جلد دوم: جلد دوم بطرز  "ہفت اقلیم" امین رازی نگاشتہ شدہ، در شرح احوال ہر اقلیم و بیان بلاد و تاریخ آن کہ بذکر مشاہیر رجال بلاد نیز می پردازد۔ این جلد در 1304ھ از بمبئی انتشار یافت۔

جلد سوم: کہ برای ما نھایت گرانبھا و مفید است، مشتمل است بر تاریخ سند و مشاھیر آن کہ در آغاز بذکر تاریخ ملکی و سیاسی می پردازد، شاھان و حکمرانان را ذکر می کند، بعد ازان احوال ہر شھر و بزرگان و علماء و ادباء و شعراء آن رامی آورد، کہ در مطبع ناصری دہلی بسال 1304ھ نشر شدہ است (2)۔

تاریخ اتمام کتاب (1181ھ) را میر قانع چنین آوردہ است:

شکر خدا کہ تذکرہ تحفۃ الکرام

اندر سہ جلد یافتہ تزئین اختتام

ہر جلد اوست روضہ اخبار دلکشا

نظارہ کیش مفت شود دیدہ شاد کام

قانع اگرچہ نیست سزاوار ذکر خیر

لیکن بفیض اھل خبر یافت این مرام

باشد کنند اھل  دلش یاد بعد مرگ

یعنی کہ یادگار نکو ماند مستھام

سال تمامیت چو نمود از خرد سوال

اینک چہ منتخب ز دل آمد مراپیام

شکر خدا کہ یافتہ تزئین انتخاب

این "تحفۃ الکرام" بائین انتخاب

سال تمامیت چو نمودم ز دل سوال

ہاتف زدہ ندا کہ "نو آئین انتخاب"

                               1181ھ

17- مثنوی اعلان غم: ( 1192ھ) نام این کتاب در فھرست سابق الذکر (موزہ برطانیہ) موجود است۔ نویسنده فھرست گوید: کہ 356 صفحہ،  34 سطری است، دارای (11733) بیت، تالیف 1192ھ بخط مصنف۔

ما  تا کنون نسخہ این کتاب را بدست نیاوردہ ایم۔ غالبا این مثنوی در شرح مصائب اھل بیت نبوی نظم شدہ است۔

18- زبدۃ المناقب: (1192ھ) نویسندہ فھرست کتب خانھای تتہ می نویسد کہ این کتاب دارای 362 صفحہ، 17 تا 20 سطری ست، و (1200) بیت دارد۔

19- مختار نامہ: (1194ھ) درشرح حال مختار ثقفی۔ دارای 208 صفحہ 34- 36 سطری، جملہ ھفت ہزار بیت، کہ در سنہ 1194 ھ تالیف شدہ۔ نسخہ ایک ذ کرآن درفھرست کتب خانہ ہای تتہ آمدہ، عین آن اکنون در بورد ادبی سندھی موجود است، کہ شعر اول آن اینست:

بنامِ جھان داور کرد گار

کہ بر قدرت اوست مختار کار

بیت آخرین کہ سال تالیف کتاب ازان می بر آید چنین است:

بمانی باین حشمت و اعتلا

بحق محمد بآلِ عبا

20- نصاب البلغاء: (1198ھ) کتابیست بسیار مھم در لغت و مصطلحات مختلفہء حیات انسانی، کہ آنرا قاموس توان گفت، فھرست مضامین آن چنین است:

(1)           علم طب و متعلقات او-

(2)           اسمای اعضاء-

(3)           اسباب غذا-

(4)           ذکر آب و زمین-

(5)           اجناس غلہ

(6)           اقسام سبزی و بقول-

(7)           موسم کاشت-

(8)           ذکر لحوم-

(9)           ذکر شعر و متعلقاتش-

(10)     عطریات و عقاقیر-

(11)     طعام-

(12)     اقسام فواکہ-

(13)     آلات و ادوات طبخ-

(14)     اقسام پلاو-

(15)     اضاف قلیہ-

(16)     بریانی و غیر آن-

(17)     اقسام آش-

(18)     اقسام کشک-

(19)     اقسام اچار-

(20)     اقسام خاگینہ-

(21)     اقسام حلویات و مالیدہ-

(22)     الوان نان-

(23)     اوقات طعام خوردن-

(24)     حیوانات پوستینہ-

(25)     چِرم دوزی و آلات آن-

(26)     لباس پشیمنی-

(27)     لباس نفیس پشمینہ-

(28)     آلات ندف-

(29)     آلات جولاھی-

(30)     الوان اقمشہ و اجناس آن-

(31)     صباغی و الوان آن-

(32)     اقسام کسوات-

(33)     پاپوشھا-

(34)     اقسام متفرق جامھا-

(35)     آلات درزی و کشیدہ کاری-

(36)     در عمارت-

(37)     درود گری-

(38)     الوان عمارت زمستانی و تابسانی-

(39)     لوازم خانہ-

(40)     حیوان خانہ داری-

(41)     تجملات خانہ از فروش و مراکب-

(42)     در بیان طیور-

(43)     لوازم شھریت-

(44)     لوازم ترتیب شھر-

(45)     اھل حرفت-

(46)     تجار و بیع و شریٰ

(47)     اسباب حکومت و متعلقات آن-

(48)     مناصب و القاب عھدہ داران-

(49)     تسجیل و دفاتر-

(50)     ضوابط و قواعد در اسماء اصطلاحات-

(51)     الفاظ متعارفہ-

(52)     تاھل وتنا کح و توالد-

(53)     آرایش عروس-

(54)     دامادی و صحبت-

(55)     لوازم مولود-

(56)     ابتدائی حمل-

(57)     لوازم طفل-

(58)     بازی ہای اطفال

(59)     تعلیم و تعلم اطفال-

(60)     اصطلاحات علوم-

(61)     شعر و شاعری-

(62)     آداب دبیری-

(63)     علم لغت-

(64)     قواعد مساحت-

(65)     ضوابط علم نجوم-

(66)     اسمای منازل ماہ-

(67)     تقسیم منازل بر بروج-

(68)     سال عربی-

(69)     عدد ایام سال فارسی-

(70)     ماہ ہای بحساب شمس

(71)     ماہ ہای سندھی و نامھای فارسی-

(72)     لوازمات سواری

(73)     اسلحہ حرب-

(74)     جانوران شکاری-

(75)     حیوانات-

(76)     طیور خوردنی و غیر آن-

(77)     تشرب و  اقسام آن-

(78)     اوقات تشرب-

(79)     تغنی و اوقات آن-

(80)     نغمات اھل فرس-

(81)     بیان سی لحن-

(82)     نام سرایندہ و سازھا-

(83)     نغمات اھل ھند-

(84)     سیاحت و سیر-

(85)     صفت جبال-

(86)     لوازم بحار و مراکب-

(87)     جانوران آبی واقسام ماھی-

(88)     حشرات موذی وغیرھم-

(89)     اشجار و نباتات-

(90)     اوقات و جھات و اما کنہ-

این کتاب دارای (185) صفحہ و نسخہء خطی مولف نزد مولانا محمد ابراہیم گرھی یاسینی موجود است در خاتمہ آن مولف می نویسد: "کاتبہ  و مولفہ روز خمیس چھاردھم رجب 1198ھ۔"

21- مثنوی ختم السلوک: (1199) کہ از کلمات ،ختم السلوک، سال تالیف آن برمی آید، و مشنوی ست مشتل بر رموز و نکات تصوف در 286 صفحہ- فی صفحہ 15 سطر- کہ یک مقدمہ و (21) مقالہ و یک خاتمہ دارد۔

بیت اول آن:

من کہ باشم تا زنم دم از ثنا

چون بلا احصی محمد زد ندا

بیت آخرین کتاب:

ہاتف این جاوید خوش کارم چو دید

سال وی گفتا بود "ختم السلوک" (1199ھ)

نسخہ آن بخط مولف اکنون در بورد  ادبی سندھی موجود است۔ درین مثنوی مضامین ذیل آمدہ:

(1) مقدمہ در بیان علم قیام-

(2) مقالہ در بیان معرفت حق سبحانہ:


(1)  نيز ر- ک- تحفه الکرام (مطبوعه ج، 3 صه 193 تا صه 199) تحت عنوان ”سادات شيرازي المعروف بشکرالهٰي“-

(2)  قاضي سيد شکرالله، بن سيد وجه الدين، بن سيد نعمت الله، بن سيد عرب شاهه، بن امير نسيم الدين محمد المعروف بمير ميرک شاه، بن امير عطاءُالله جمال الدين محدث، بن فضل الله، بن عبدالله الحسيني الدشتکي الشيرازي (تحفه الکرام ج، (3 صه 193 و مقالات صه 532).

(1)  فرزند سيد يارمحمد، مير عظيم الدين تتوي (متوفي 1229هه) شاعر مشهور و صاحب ديوان اشعار، و مثنوي هير و رانجها و مثنوي فتح نامه است-

(2)  ضياء الدين متخلص به ”ضيا“ (المتوفي سنه 1229هه) نيز شاعر مشهور عصر و صاحب ديوان اشعار است-

(3)  ر- ک؛ شرح حال مير علي شير ’قانع‘ مطبوعه مجله مهران شماره 2- 1956ع

(1)  وقتيکله سر ايليت تاريخ مفصل هند را می نوشت، وی فهرستهای کتب خطی اکثر کتب خانهای هند را فراهم آورده بود، که اکنون در ذخيره ايليت در موزه برطانيه موجود است در فھرست های مذکور دوسيه (پرونده) خاص کتب خانه تته نمبر فوق را دارد، و درين مقاله هر جا که ذکر آن ميرود، مقصد همان دوسيهء خاص فهرست است-

(2)  در لاهور نزد علامہ دانشمند گرامی مولانا محمد شفيع نسخده خطی تحفۃ الکرام بخط خود ’قانع‘ موجود است، که بر سر ورق آن بخط فرزندش مير غلام علی .’مائل‘، فهرست تاليفات پدرش نوشته  شده و ازان برخی اسماي مولفات ’قانع‘ بما رسيده است که درين مبحث بحواله آن آورده ايم-

(1)   یعنی در کتب خانہ اولاد میر قانع-

 (1)   تحفۃ الکرام ج، 3 صہ 102-

(2)  جلد سوم را بورد ادبی سندھی عنقریب بتصحیح دکتور داؤدپوتہ و راقم سطور نشر خواھدکرد۔

نئون صفحو --  ڪتاب جو ٽائيٽل صفحو
ٻيا صفحا 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15
هوم پيج - - لائبريري ڪئٽلاگ

© Copy Right 2007
Sindhi Adabi Board (Jamshoro),
Ph: 022-2633679 Email: bookinfo@sindhiadabiboard.org