سيڪشن: شخصيات

ڪتاب: آغا سليم (شخصيت ۽ فن)

 

صفحو:41

 

(حصہ اردو)

آغا سلیم

شاھ عبداللطیف بھٹائی

 

شاھ عبداللطیف بھٹائی 1490ءمیں موجودہ ضلع حیدرآباد کے موضع ہالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلقّ سندھ کے ایک برگزیدہ سیّد خاندان سے تھا۔ آپ کے والد کا نام سیّد حبیب شاہ تھا۔ جن کا شمار سندھ کی برگزیدہ ہستیوں میں ہوتا ہے۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی کی پیدائش کے متعلق ایک روایت مشہور ہے کہ آپ کے والد سیّد حبیب شاہ نے تین شادیاں کیں۔ لیکن اُن کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی۔ ایک بار ایک بزرگ اُن کے ہاں آکر مہمان ہوئے۔ اس بزرگ کا نام عبداللطیف تھا۔ سیّد حبیب شاہ کی درخواست پر بزرگ نے اللہ تعالیٰ سے دُعا کی اور حبیب شاہ کو بشارت دی کہ اللہ نے چاہا تو آپ کے ہاں لڑکا ہوگا جو یکتائے روزگار ہوگا۔ میری خواہش ہے کہ آپ اس لڑکے کا نام میرے نام کی نسبت سے عبداللطیف رکھیں۔ بزرگ عبداللطیف کی دُعا قبول ہوئی اور کچھ عرصے کے بعد حبیب شاہ کے گھر لڑکا پیدا ہوا۔ جس کا نام انہوں نے بزرگ عبداللطیف کی خواہش کے مُطابق عبداللطیف رکھا۔ لیکن وہ لڑکا کچھ عرصے کے بعد فوت ہو گیا۔ اس کے بعد حبیب شاہ کے گھر ایک اور لڑکا پیدا ہوا۔ اس لڑکے کا نام بھی انہوں نے عبداللطیف رکھا۔ یہی وہ عبداللطیف تھے جو بعد میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کے نام سے مشہور ہوئے۔

سائیں عبداللطیف بھٹائی کے بزرگوں کا تعلق ہرات سے تھا۔ امیر تیمورکے زمانے میں میر علی نام کے ایک معّزز سیّد ہرات میں رہتے تھے۔ 801ھ؁ میں امیر تیمور ہرات میں آئے تو سیّد میر علی نے امیر تیمور کی بہت خاطر مدارات کی اور ایک بڑی رقم نذرانے کے طور پر پیش کی۔ امیر تیمور سید میر علی کی خاطر و مدارات اور آداب و اطوار سے بہت متأثر ہوا اور سید میر علی اور ان کی دو بیٹوں سید ابو بکر اور سید حیدر شاہ کو اپنے مصاحبین میں شامل کر کے اپنے ساتھ ہندوستان لے آیا۔ ہندستان میں امیر تیمور نے میر علی کے بیٹے ابو بکر کو سندھ میں سیوہن کا حاکم مقرّر کیا۔ اور سید میر علی اور حیدر شاہ کو اپنے ساتھ رکھا۔ لیکن کچھ عرصے کے بعد سید حیدر شاہ نے اپنے والد اور امیر تیمور سے اجازت لی اور گھومتے گھامتے سندھ آگئی اور ہالا کے ایک معزّز زمیندار شاہ محمد کے ہاں مہمان ہوئے شاہ محمد ان کی شخصیّت اور کردار سے اتنا متأثر ہوئے انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی سید حیدر شاہ سے کر دی۔ شاہ محمد کی بیٹی کا نام فاطمہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سید حیدر شاہ کی والدہ کا نام بھی فاطمہ تھا۔ اس لئے حیدر شاہ نے ان کا نام سلطانہ رکھا۔

شادی کے بعد سید حیدر شاہ تین چار سال ہالا میں رہے۔ اس دوران میں اُنہیں اطلاع ملی کہ ان کے والد وفات پا گئے ہیں۔ اپنے والد کے انتقال کی خبر سنتے ہی وہ ہرات جانے کے لئے تیار ہو گئے۔ اس وقت ان کی بیوی حاملہ تھیں حیدر شاہ نے وصیّت کی کہ ان کی غیر موجودگی میں اگر لڑکا پیدا ہو تو اس کا نام میرے والد کی نام کی نسبت سے میر علی رکھا جائے اور اگر لڑکی پیدا ہو تو اس کا نام اُن کی والدہ کی نسبت سے فاطمہ رکھا جائے۔

حیدر شاہ ہرات چلے گئے اور ان کی غیر موجودگی میں ان کے گھر لڑکا پیدا ہُوا۔ جس کا نام حیدر شاہ کی وصیّت کے مطابق میر علی رکھا گیا۔ میر علی کے خاندان میں بڑی بڑی بُزرگ ہستیاں پیدا ہوئیں۔ شاہ کریم بُلڑی والے اور شاہ عبداللطیف بھٹائی میر علی ہی کے خاندان میں پیدا ہوئے۔ دونوں اپنے اپنے دور میں سندھی زبان کے عظیم شاعر تسلیم کئے گئے۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی ابھی کم سن ہی تھے کہ ان کے والد ہالا سے نقل مکانی کر کے کوٹڑی کے مقام پر رہنے لگے۔ کوٹڑی میں ہی انہیں آخوند نور محمد کی درس گاہ میں بھیجا گیا۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی جیسے عظیم شاعر کا ظہور بذاتِ خود ایک معجزہ ہے۔ لیکن لوگوں کی عقیدت مندی، خلوص اور محبت، وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ایسی ہستیوں کے گرد تصوّراتی اور معجزاتی کہانیون کا تانا بانا سا بُن دیتی ہیں لطیف سائیں کی شخصیت کے گرد بھی ایسی ہی تصوّراتی اور معجزاتی کہانیوں کا تانا بانا بُنا ہوا ہے اور ان سے کئی معجزے منسوب کئے گئے ہیں۔ ان کی شاعری کو معجزہ ثابت کرنے کے لئے یہ روایت مشہور کی گئی کہ لطیف سائیں اَن پڑھ تھے اور کسی اَن پڑھ کا ایسی شاعری کرنا معجزہ ہی تو ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لطیف سائیں کی شاعری معجزہ ہے لیکن یہ بات صحیح نہیں کہ لطیف سائیں اَن پڑھ تھے۔ وہ نہ صرف پڑھے لکھے تھے بلکہ عربی اور فارسی کے عالم تھی۔ کہتے ہیں کہ لطیف سائیں کلام پاک، مثنوی مولانا روم  اور شاہ کریم بلڑے والے کا کلام ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ اگر یہ بات مان لی جائے کہ لطیف سائیں اَن پڑھ تھے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی اَن پڑھ کو کلامِ پاک اور مثنوی مولانا روم اپنے ساتھ رکھنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس کے علاوہ جس طرح انہوں نے اپنی شاعری میں کلامِ پاک اور عربی اور فارسی کے الفاظ اور تراکیب کا استعمال کیا ہے اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ لطیف سائیں پڑھے لکھے تھے۔

جس زمانے میں سید حبیب شاہ ہالا سے نقل مکانی کر کے کوٹڑی گئے۔ اُس زمانے میں کوٹڑی میں ایک مغل نواب مرزا مغل بیگ ارغون رہتا تھا۔ مغل بیگ سید حبیب شاہ کی پرہیزگاری اور خوش اخلاقی سے قدر متأثر ہوا کہ وہ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ان کے اِرادت مندوں میں شامل ہو گیا۔ جب بھی مغل بیگ کے گھر میں کوئی بیمار ہوتا تو وہ اپنے مرشد سید حبیب شاہ کو دُعا کے لئے اپنے گھر لے جاتا۔ ایک بار اس کی جوان بیٹی سیّدہ بیمار پڑ گئی۔ مغل بیگ نے حبیب شاہ سے درخواست کی کہ میری حویلی چل کر میری بیٹی کو دُعا دیں۔ اتفاق سے اس دن حبیب شاہ کی طبیعت ناساز تھی۔ انہوں نے اپنے بیٹے شاہ لطیف سے کہا کہ تم جا کر مغل بیگ کی بیٹی کو دعا دے آؤ۔

مغل بیگ لطیف سائیں کو لے کر اپنی حویلی میں گیا۔ لطیف سائیں نے جیسے ہی مغل بیگ کی بیٹی کو دیکھا تو اس کے حُسنِ بے مثال سے مسحور ہو گئے۔ انہوں نے دُعا کے لئے مغل بیگ کی بیٹی کی انگلی تھامی اور دُعا دیتے ہوئے کہا کہ جس کا ہاتھ سیّد نے تھام لیا ہو، اُسے کیسا دُکھ اور کیسی بیماری! لیکن لطیف سائیں کی یہ بات مغل بیگ کو سخت ناگوار گُذری۔ اس وقت تو وہ خاموش ہو گیا۔لیکن بعد میں اُس نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ سیّد حبیب شاہ کو پھر سے نقل مکانی کرکے ہالا میں سکونت اختیار کرنی پڑی۔

اس جذباتی حادثہ نے لطیف سائیں کی پوری زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ اپنے جس آئیڈیل کو انہوں نے مجسّم دیکھا تھا اسے پانے کی تڑپ اور بے تابی سے مجبور ہو کر وہ جنگلوں اور بیابانوں میں گھومتے رہے۔

ایک دن وہ ریت کے ٹیلے پر بیٹھے تھی۔ وہاں بیٹھے بیٹھے کئی دن گذر گئے۔ ہَوا سے اُڑتی ہوئی ریت نے اُن کے پورے دھڑ کو ڈھانپ دیا۔ اُن کے والد سیّد حبیب شاہ انہیں ڈھونڈتے ہوئے وہاں پہنچے اور دیکھا کہ لطیف سائیں ریت میں دھنے ہوئے ہیں۔ حبیب شاہ نے اپنے بیٹے کی حالت دیکھ کر ایک شعر کہا کہ:

ایسی ہوا چلی کہ ریت نے سارے انگ ڈھانپ لئے۔

لطیف سائیں نے جواب میں شعر کہا کہ:

لیکن برہمن اپنے پریتم کو دیکھنے کے لئے ابھی تک جی رہی ہے۔

حبیب شاہ انہیں گھر لے آئی۔ لیکن سائیں لطیف سی گھر بیٹھا نہ گیا۔ ایک دن اچانک وہ گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور جوگی بن کر دشت و بیابان میں گھومتے رہے۔ تین سال تک وہ انگ بھبھوت رمائے جوگیوں کے ساتھ نگری نگری گھومتے رہے۔ اس دوران میں عام لوگوں سے ملے۔ ان کو قریب سے دیکھا۔ ان کے دُکھوں اور محرومیوں کو محسوس کیا۔ یہ دَور ان کی زندگی کا وہ دور ہے جس میں محبوب کو پانے کی تڑپ اور نہ پا سکنے کی بے بسی نے ان کے احساسات اور جمالیاتی ذوق کو نکھارا اور دُکھ نے ان کے اندر کو دھوکر اُجلا کیا۔ بعد میں جب انہوں نے ایک بھٹ پر سکونت اختیار کی تو اس دور کے سارے تجربے، دُکھ، درد اور مجبوریاں ان کی شاعری میں ڈھل گئیں۔ محبوب کے فراق، اُسے پانے کی تڑپ اور دشت و بیاباں کے سفر کی صعوبتوں کو اُنہوں نے سسّی کی داستان میں بیان کیا۔ اور جن انگ بھبھوت جوگیوں کے ساتھ وہ مختلف تیرتھوں پر گھومتے رہے ان کے لئے انہوں نے سُر رامکلی لکھا۔ جوگیوں کے متعلق لکھتے ہیں کہ:

اس دنیا میں جوگی نوری بھی ہیں اور ناری بھی ہیں

جو جوگی عشق کی آگ میں تپ کر روشنی پھیلاتے ہیں۔ میں ان کے بغیر کیسے جیئوں گی؟ اپنی ایک وائی میں جوگیوں کے متعلق کہتے ہیں:

بے راگی بے کل، سنکھ بجا کر لاد چلے

کبھی وہ بھٹکیں پورب کو کبھی بھٹکیں بن جنگل

جوگی اگنی تاپ رہے، میرے نین سے برسے جل

جوں چندن کی لکڑی سلگے، سُلگوں میں پل پل

کہے لطیف کَویَ، بیراگی، آئیں آج یا کل۔

تین سال کی دشت نوردی کے بعد ٹھٹھہ آئے جہاں ان کی ملاقات اس دُور کے بہت بڑے عالم اور بزرگ مخدوم علامہ محمد معین سے ہوئی۔ اس وقت لطیف سائیں جذباتی طور پر بکھرے ہوئے تھے۔ مخدوم صاحب نے ان کے درد اور کرب کو محسوس کیا اور ان کے ساتھ کچھ ایسا برتاؤ کیا کہ شاہ سائیں دشت نور دی کو چھوڑ کر اپنے والدین کے پاس لوٹ آئے۔

ان ہی دنوں دل قوم کے چند افراد نے ذاتی دشمنی کی بنا پر مرزا مغل بیگ ارغون کی حویلی پر حملہ کیا اور اس کے خاندان کے تمام مردوں کو قتل کر کے سارا مال اور دولت لوٹ کر لے گئے مرز ا کے خاندان میں سی چند خواتین اور ایک نو عمر لڑکا بے یار و مددگار باقی رہ گئے۔ اس قتل و غارت اور لوٹ مار سے مغل بیگ کے خاندان پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے مرزا کے خاندان کی عورتوں نے سوچہ کہ یہ ساری مصیبتیں ان پر اس لئے ٹوٹی ہیں کہ مرزا نے اپنے مرشد سید حبیب شاہ کو ناراض کیا تھا۔ وہ سید حبیب شاہ کے پاس آئیں اور اُن سے معافی مانگی، سرپرستی فرمانے کی درخواست کی اور مرزا مغل بیگ کی بیٹی سیّدہ کو لطیف سائیں کے نکاح میں دینے کی خواہش ظاہر کی۔ سید حبیب شاہ نے ان کی درخواست قبول کی اور سیّدہ کا نکاح اپنے بیٹے لطیف سے کرایا۔ اس طرح لطیف سائیں نے اپنے من کی وہ مرُاد پا لی کہ جس کی خاطر وہ تین سال تک جنگلوں اور بیابانوں میں بھٹکتے رہے تھے۔

لاحاصل کو حاصل کرنے کی تڑپ اور بے تابی نے لطیف سائیں کے جمالیاتی ذوق کو نکھارا تھا اور ان کو احساساتی رفعتیں بخشیں تھیں۔ شاہ سائیں اپنے آئیڈیل کو پانے کے بعد اپنی پچھلی کیفیت کے طرف پلٹ نہ سکے۔ لاحاصل کو حاصل کرنے کے بعد والی کیفیت نے ان کے دل میں کسی ایسے حُسن اور ایسے آئیڈیل کو پانے کی تڑپ پیدا کی جو انسانی حُسن کی طرح ناپائیدار نہ ہو۔ اور پا لینے والے میں مکمل سیرابی کی کیفیت پیدا ہو جائے۔۔۔ مجازی حُسن نے انہیں لازوال حُسن حقیقی سے روشناس کرایا۔ لطیف سائیں کی زیادہ تر شاعری لاحاصل کو حاصل کرنے کی اسی تڑپ اور بے تابی  کی شاعری ہے۔ وہ کہتے ہیں:

مَیں جس پنہوں کو ڈھونڈ رہی ہُوں اُسے کبھی نہ پاؤں

کہ کہیں میرے من کی تڑپ اور بے تابی پا لینے کے بعد

ختم نہ ہو جائے۔

میرے محبوب کی یاد ہی مجھے زندہ رکھے ہوئے ہے۔

مَیں محبوب سے مل کر کیا کروں گی۔

میرے محبوب کی محبّت میرے وجود کے کناروں

سے چھلک رہی ہے۔

کون کہتا ہے کہ میرا محبوب مجھ سے دُور ہے

وہ تو میری رُوح میں رچا ہوا ہے۔

شادی کے بعد شاہ سائیں نے کوٹڑی سے پانچ چھ کوس کے فاصلے پر ریت کے ایک ٹیلے کو منتخب کیا۔ اور اسی ٹیلے پر رہنے لگی۔ ریت کے ٹیلے  کو سندھی میں بھٹ کہتے ہیں اور اسی نسبت سے شاہ  سائیں کو بھٹائی "ٹیلے والا" کہا جاتا ہے۔

زندگی کے آخری دنوں میں شاہ سائیں کے دل میں مقُدّس مقامات کی زیارت کا شوق پیدا ہوا۔ وہ زیارت کا شوق پیدا ہوا۔ وہ زیارت کے لئے گھر سے روانہ ہوئے لیکن نہ جانے کیوں واپس لوٹ آئے۔  اور عبادت اور ریاضت میں مہنک ہو گئے۔ آخری دنوں میں انہوں نے سیاہ کپڑے زیبِ تن کئے اور امام حسین رضہ کی شہادت کے حوالے سے "سُر کیڈارو" لکھا۔ یہ سُر مکمل کیا۔ نہائے دھوئے کپڑے بدلے۔ مریدوں کے پاس آئے۔ ان سے راگ گانے کی فرمائش کی اور خود چادر لپیٹ کر حجرہ میں مراقبے میں بیٹھ گئے۔ تین دن تک راگ ہوتا رہا اور تین دن تک لطیف سائیں مراقبے میں بیٹھے رہے۔ تیسرے دن مریدوں نے حجرہ میں جاکر دیکھا تو اُن کی روح نہ جانے کب اپنے محبوب سے جا ملی تھی۔ محققین نے ان کی تاریخ وفات 14 صفر ؁1145ھ لکھی ہے۔ ٹھٹہ کے مشہور شاعر محمد پناہ رجا نے ان کی تاریخِ وفات نکالی۔ اس دَور کے کلہوڑہ حاکم غلام شاہ نے 1147؁ہجری میں شاہ سائیں کے مزار پر مقبرہ تعمیر کرایا جو سندھی فن ِتعمیر کا نادر نمونہ ہے۔

تاریخی اور سماجی پس منظر

ہر بڑا شاعر اپنے دور کا شعور ہوتا ہے۔اس کی شاعری اُس کے دور کے سیاسی، سماجی اور معاشی عوامل کا ردِّ عمل ہوتی ہے۔ اس لئے شاہ سائیں کی شاعری کو سمجھنے کے لئے سندھ کی تاریخ، شاہ سائیں کے دور کے سیاسی، سماجی اور معاشی عوامل اور سندھی لوک داستانوں کا جاننا نہایت ضروری ہے۔

720ہجری میں عربوں کی فتح سے قبل سندھ پر رائے گھرانے کی حکومت تھی جو بُدھ مت کے پیرو تھے۔ اروڑ (الور-الرور) ان کا پایۂ تخت تھا۔ ان کی سلطنت کی سرحدیں مارواڑ، گجرات، کشمیر اور دریائے ہلمند تک پھیلی ہوئی تھیں۔ رائے گھرانے کے دور میں سندھ کی سرکاری زبان پالی تھی لیکن عوام کی زبان پراکرت تھی۔

رائے گھرانے کے آخری حکمران رائے سہاسی کے دَورِ حکومت میں اُس کے ایک چالاک برہمن وزیر چچ سین نے اسے قتل کر کے تخت پر قبضہ کر لیا۔ چچ کا باپ سہائیج سین اروڑ کا پنڈت تھا۔ اور چچ سین کو چاروں وید زبانی یاد تھے۔ چچ سین چونکہ پنڈت تھا اس لئے راجپوت قبیلوں نے اُسے اپنا حاکم ماننے سے انکار کر دیا۔ اور بہت سے راجپوت قبیلوں نے بغاوتیں کر دیں۔ چچ سین بہت چالاک برہمن تھا۔ اُس نے لالچ، دولت اور طاقت سے راجپوتوں کی بغاوتوں پر قابو پالیا۔ داخلی خانہ جنگیوں سے فارغ ہونے کے بعد اس نے اپنی سلطنتوں کی سرحدوں کو مضبوط بنایا۔ شمال میں کشمیر اور دریائے ہلمند کی سرحدوں پر کھجوروں کے درخت لگا کر اپنی سرحدوں کی حد بندی کی۔

چچ کے بیٹے ڈاہر سین کے دور حکومت میں عربوں نے سندھ کو فتح کیا اور عرب اور سندھی ثقافت کے سنگم سے ایک نئی ثقافت نے جنم لیا۔ عرب عالموں نے کلامِ پاک کا سندھی میں ترجمہ کیا اور بہت سے سندھی علمأ فقہ نے علمِ حدیث اور علم تفسیر میں کمال حاصل کیا۔

اسماعیلی داعی سندھ میں آئے۔ انہوں نے سندھی، سرائکی اور گجراتی زبانوں میں مذہبی گیت لکھے جن کو گنان کہا جاتا ہے۔

عربوں کے دورِ حکومت  میں ایک مقامی قبیلہ سومرہ جو عقائد کے لحاظ سے اسماعیلی تھا آہستہ آہستہ اقتدار میں آنا شروع ہوا۔ اور انہوں نے ملتان تک اپنی حکومت قائم کر لی۔

سومروں کا دُور سندھی زبان کے پھلینے پھولنے کا دَور ہے۔ سندھ کی لوک داستانیں عمر ماروی، مومل رانو، دودو چنیسر، لیلا چنیسر، موکھی تمسارا سومروں ہی کے دَور کی داستانیں ہیں سندھی زبان کے شاعروں کو بھان اور چارن کہا جاتا تھا۔ پہلی بار سندھی شاعروں کو دربار میں رتبہ ملا۔

سومروں کے بعد سمّہ خاندان کی حکومت کا دَور شروع ہُوا۔ سمّہ بھی سومروں ہی کی طرح سندھی راجپوت تھے۔ ان کے دَور حکومت میں ٹھٹھ علم و ادب کا مرکز بنا۔ ہرات اور شیراز سے عالم، ادیب اور شاعر ہجرت کر کے ٹھٹھہ میں سکونت پذیر ہوئے۔ سمّہ دور میں قاضی قادن جیسا بلندہ پایہ شاعر پیدا ہوا۔ اور فوری جام تماچی اور لیلا چنیسر جیسی داستانوں نے جنم لیا۔

سمّہ خاندان کے آخری فرمانروا جام فیروز شاہ کی ناعاقبت اندیشی سی وسط ایشیا کی جنگجو قوم ارغون اور ترخان نے درّۂ بولان سے سندھ پر حملہ کیا اور سندھ پر قابض ہو گئے۔

اکبر کے دورِ حکومت میں اکبر کے سپہ سالار مرزا عبدالرحیم خانِ خاناں نے سندھ پر حملہ کیا اور سندھ کو مغلوں کے تابع کر دیا۔ دہلی کی حکومت کمزور پڑنے لگی تو سندھ کا ایک مقامی قبیلہ کلہوڑہ اقتدار میں آنا شروع ہوا۔ کلہوڑوں کے دور ِ اقتدار میں نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کی فوجوں نے سندھ کو روندا۔

یہی وہ دَور ہے جس میں شاہ لطیف سائیں کی وائیوں کی گونج سُنائی دیتی ہے۔

سماجی طور پر سندھ کا معاسرہ جاگیردارانہ معاشرہ تھا سارا معاشرہ جاگیرداروں زمینداروں، مذہبی پیشواؤں، کاشت کاروں اور مختلف پیشوں سے تعلقہ رکھنے والے افراد میں بٹا ہوا تھا۔

حاکم محصولوں کے نام پر عوام سے دولت بٹورتا تھا اور اس دولت کو عوام کی بھلائی اور فلاح کے بجائے اپنے ذاتی عیش و عشرت اور جاہ و جلال پر خرچ کرتا تھا۔ عوام بڑے بڑے محصولوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھی۔ لگان کی شرح ایسی تھی کہ کبھی کبھی کاشت کاروں کو ساری فصل لگان ہی میں دینی پڑتی تھی۔ ان محصولوں اور لگان سے بچنے کے لئے بہت سے سندھی قبیلے زمینیں اور گاؤں چھوڑ کر پہاڑوں اور جنگلوں میں جا چھپتے جہاں سے وہ شہروں اور دیہاتوں پر حملے کرتے اور لُوٹ مار کر جنگلوں اور پہاڑوں میں چلے جاتے۔

اسی دَور میں جھوک کے مقام پر شاہ عنایت صوفی پیدا ہوئے جنہوں نے کاشتکاروں کا لگان معاف کر دیا اور کاشت کار بڑے بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں کو چھوڑ کر شاہ عنایت صوفی کے پاس آنے لگے۔

 سندھ کے جاگیرداروں اور زمینداروں کو شاہ عنایت صوفی کی اس تحریک سے اپنا وجود خطرے میں محسوس ہوا۔ انہوں نے دہلی دربار میں شاہ عنایت کے خلاف درخواستیں بھیجیں دہلی سے ٹھٹھہ کے حاکم اعظم خان اور کلہوڑہ حاکم کو حکم نامے بھیجے گئے کہ شاہ عنایت کے فتنہ کو ختم کیا جائے۔

شاہ عنایت صوفی پر الزام تھا کہ ان کے عقائد شرع کے خلاف تھے دہلی دربار سے احکامات ملتے ہی اعظم خان اور کلہوڑہ حاکم نے جھوک شریف پر فوج کشی کی اور شاہ عنایت صوفی کو قتل کر دیا۔ اس وقت شاہ لطیف سائیں کی عمر 31 سال تھی۔

شاہ لطیف نے اس دَور کے مظالم کے خلاف اس طرح احتجاج کیا کہ پورے دَور کو ٹھکرا کر ریت کے ایک ٹیلے پر سکونت اختیار کر لی اپنے دَور کے تاریخی، سماجی اور سیاسی عوامل کے حسیاتی ردِّ عمل کو شاعری کا روپ دیتے رہے۔ لطیف سائیں کا یہ شعر اور اس طرح کے کئی اشعار شاہ عنایت صوفی کی شہادت کے سانحے کا حسیّاتی ردِّ عمل ہیں۔

سارا جہاں منصور ہے تو کس کس کو سُولی پر لٹکائی گا۔

شاہ سائیں کی شاعری

شاہ سائیں وحدت الوجود کے قائل تھے یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ وحدت الوجود کا عقیدہ شاہ سائیں کے خون میں دھڑکتا ہوا زندہ عقیدہ تھا۔ ان کی رگ رگ میں اللہ اور رسُول صہ کا عشق تھا اور وہ وحدت الوجود کے قائل تھے۔ شاہ سائیں کی شاعری میں وہ کونسی خوبیاں ہیں جو ان کو ان کے ہی مسلک کے دوسرے شعرا سے جدا گانہ مقام اور حیثیت دیتی ہیں اور ان کی شاعری کو اس طرح زندہ  رکھے ہوئے ہیں کہ ان کی شاعری آج بھی سندھ کے جنگلوں بیابانوں بستیوں، شہروں، درسگاہوں، اَن پڑھ اور پڑھے لکھے سندھیوں کی رُوحوں میں گونجتی ہے۔

شاہ سائیں کے دور میں سندھ کی سرکاری زبان فارسی تھی۔ فارسی زبان کے شاعروں کو درباروں سے رُتبی، خلعتیں اور وظیفے عطا ہوتے تھے اور شہری شرفا  Fuedal Aristo Cracy ان کی قدر کرتے تھے۔ فیوڈل آرسٹو رکیسی کا اپنا کلچرل پیٹرن، اپنی عادات، آداب، اطوار اور زبان کا اپنا لہجہ، آہنگ اور ایڈیئم تھا۔ وہ اپنے اسی لہجے، آہنگ ایڈیئم اور عادات، اطوار اور آداب سے اپنے مہذب شہری کلچر اور دیہی عوام کے کھردرے، کرخت اور غیرمہذب کلچر میں تمیز کرتے تھے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ شہری شرفا کے اسی کلچر کا شاعر جب سفر کرتا ہے تو اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیتا ہے تاکہ عوام کا کرخت اور کھردار لہجہ اور آہنگ اس کے اپنے شہری شرفا کے مہذب لہجے اور آہنگ کو بگاڑ نہ دی۔ وہ کسی لفظ کے صوتی آہنگ کی صحت کو پرکھنے کے لئے ایرانی شعرأ کے دیوانوں کو ٹٹولتا ہے۔۔۔ شاہ سائیں کا تعلق بھی شہری شرفا کے کلچر سے تھا۔ وہ بھی فارسی اور عربی کے عالم تھے لیکن انہوں نے اپنی شاعری کا آہنگ اور لہجہ شہری شرفأ کے بجائے دھتکارے ہوئے عوام سے لیا۔ اور ان ہی کے لہجے اور آہنگ میں ان کے دُکھوں محبتوں اور محرومیوں کے گیت گائے اور لفظوں کے صوتی آہنگ کے لئے ایرانی شعرأ کی بجائی عوام سے رجوع کیا اور لفظوں کو اسی لہجے میں استعمال کیا کہ جس لہجے میں عوام ان کو استعمال کرتے ہیں۔ مثلا: بیخ، میخ اور ملول لفظوں کو بیکھ، میکھ اور ملور لکھا کہ عوام اسی طرح ان لفظوں کو استعمال کرتے ہیں۔

شاہ سائیں نے عشق کی چوٹ کھانے اور لاحاصل کو حاصل نہ کر سکنے کی بے تابی اور بے بسی میں تین سال تک جو سفر کیا وہ سفر ان کے دُکھ کا سفر تھا۔ ان کی شاعری کا سفر تھا اور زندگی کی سچائیوں کو پانے کا سفر تھا۔ اس سفر میں وہ شہری شرفأ کے بنائے ہوئے کلچر پیٹرن سے نکلے اور عوام کے بھُوکے ننگے اور سچّے کلچر کو دیکھا۔ اپنے عشق کے دُکھ کے حوالے سے ان کے دُکھوں کو اپنے وجود کی پوری سچائی کے ساتھ محسوس کیا اور انہی کی داستانوں کو اپنی شاعری کے لئے خام مواد کے طور پر استعمال کیا۔ اسی لئے شادی سائیں کی شاعری عوامی کلچر اور عام انسانوں کے دکھوں کا حسّیاتی لینڈ اسکیپ ہے۔

جاگیردارانہ معاشرے میں لوگ اپنے قبیلوں یا پیشوں سے پہچانے جاتے ہیں کچھ پیشے ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہوتے تو مفید ہیں لیکن ان پیشوں سے منسلک لوگوں کو سماجی برتری حاصل نہیں ہوتی۔ مثلا: ہمارے جاگیردارانہ معاشرے میں جولاہوں کو کوئی سماجی برتری حاصل نہیں ہے لیکن شاہ سائیں اسی جاگیردارانہ معاشرے میں جولاہوں کے مقام کو اس طرح بلند کرتے ہیں۔

چلو تو جولا ہوں کے پاس چلیں کہ ان کا

عشق بہت نازک ہوتا ہے

وہ صرف جوڑنا جانتے ہیں

توڑنا تو جانتے ہی نہیں۔

اسی طرح "سُر کامود" میں جوکہ ایک مچھیرن اور سمّہ سلطان جام تماچی کے عشق کی لوک داستان پر مشتمل ہے۔ شاہ سائیں مچھیروں کے یوں مانیٹجز بناتے ہیں:

بدبُو جن کی خوراک ہے

بدبو اور مچھلیاں جن کی پونجی ہیں۔

سمّہ سلطان نے ان سے رشتہ جوڑا جو دُکھوں سے نڈھال ہیں

لطیف کہتا ہے کہ اے سمّہ سلطان!

ان ٹھکرائے اور دھتکارے ہوؤں کی لاج رکھنا۔

مچھیرنیں کالی ہیں

بدصورت ہیں

بدبُودار ہیں!

انہیں کوئی خوبصورت کہ سکتا ہے

وہ بدبُو سے بھری ہوئی ٹوکریاں لئے راہوں میں بیٹھی ہیں

ایسوں کے ناز تو سمّہ سلطان ہی اٹھا سکتا ہے۔

صحرا کی تپتی ہوئی ریت میں پانی کی تلاش میں بھٹکنے والے چرواہے جن کا ستر صحرا ہے جن کی دلہنوں کا جہیز اسی صحرا کی پیاسی ریت اور ویرانیاں ہیں۔ ان بھُوکے ننگے انسانوں کی ایک لڑکی ماروی کو عمر نامی سومرہ بادشاہ زبردستی اغوا کر کے لے جاتا ہے۔ شاہ سائیں ایسے حاکم کے لئے کہتے ہیں:

وہ جو بے سہاروں کا سہارا ہے

وہی اگر بے سہاروں کو لُوٹنے لگے

تو بے چارے بے سہارا لوگ کس کا سہارا ڈھونڈیں۔

عمر بادشاہ ماروی کو دولت کا لالچ دیتا ہے لیکن ماروی اپنے میکے والوں کی دی ہوئی میلی کملی اپنے سر سے نہیں اُتارتی۔

"اے عمر بادشاہ! چرواہوں کی یہ ریت نہیں

کہ غیروں کے عوض اپنے ہموطنوں کو بیچ دیں

میں اس محل میں رہ کر بھی اپنے چرواہوں کی

ریت نبھاؤں گی

محلول کو دیکھ کر اپنے جھونپڑیوں کی پریت نہیں بھُولوں گی"

عظیم ہیں میرے وطن کی بیٹیاں

جن کا ستر صحرا ہے

ون اپنے ننگے جسموں کو جنگلی بیلوں

اور درخت کے پتوں سے ڈھانپ کر صحرا

میں گھومتی رہتی ہیں

میرے میکے والوں نے مجھے ویرانیاں

جہیز میں دی ہیں

شاہ سائیں صرف روح اور من کی تڑپ کے ہی شاعر نہیں، وہ انسان کے تن کی تڑپ اور جسم کی پیاس کے بھی شاعر ہیں۔

عشق کے مارے خون کے آنسو بہاتے ہیں کہ

بھنوروں کو خوشبوؤں کے زہر نے مار دیا۔

ابھر چاند اور ہمارے محبوبوں کو دیکھ

وہ تیرے قریب اور ہم سے بہت دُور ہیں

ہمارے محبوب اپنے خوشبوؤں میں رچے

ہوئے جوڑے کھول کر تیری خنک چاندنی

میں لیٹے ہوئے ہیں

 

اے میرے اونٹ! چل تو مومل کے دیس چلیں

جہاں مہکتی ہوئی بیلیں ہیں

کنواریاں ہیں

اور ایسے کنول کے پھول ہیں کہ جن پر بھنورے

نہیں منڈلاتے

وہ استعارے اور تشبیہیں بھی عوام کے کلچر سے لیتے ہیں۔ بھینس کی ایک قسم ہوتی ہے جس کے سینگ بل کھا کر آپس میں اس طرح لپٹے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی بھینس کو سندھی میں "کنڈھی" کہتے ہیں۔ شاہ سائیں کنڈھی بھینس کی سینگوں کی تشبیہ اس طرح دیتے ہیں:

کچھ انسان قریب ہوتے ہوئے بھی دُور ہوتے ہیں

اور کچھ دُور ہوتے ہوئے بھی قریب ہوتے ہیں

کچھ انسانوں کو یاد کرو تو یاد نہیں آتے

کچھ کو بھولنا چاہو تو بھُول نہیں پاتے

جس طرح کنڈھی بھینس کے سینگ بل کھا کر

آپس میں لپٹے ہوتے ہیں

اسی طرح ہمارا محبوب ہماری رُوح سی

بل کھا کر لپٹا ہوا ہے۔

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسّلم کے عشق میں ایک نعتیہ بیت میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسّلم کے ظہور سے قبل دنیا کی حالت اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسّلم کے ظہور کے بعد کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

بھنبھور بُرا اور میلا تھا

پنہوں نے آکر اسے اُجلا کیا

کنواریوں نے کپڑے رنگنے سیکھے

اور اس کے رنگ میں رنگ گئیں

پنہوں نے ڈرے اور سہمے ہوئے انسانوں

کے دلوں سے ڈر اور خوف دُور کیا

ٹھکرائی اور دھتکاری ہوئی کنواریاں سج دھج کر

دلہنیں بنیں اور گھونگھٹ کاڑھ کر بیٹھیں

جس ڈر اور خوف اور ہراس میں اس دور کے لوگ جی رہے تھے اس کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

اے ملاحو! سُکھ سے مت بیٹھو کہ گھاٹ پر  بڑا خوف

اور ہراس ہے۔

میں ہر پل تڑپتی ہوں

میرے تن میں پریتم کی پیاس ہے

میں پی رہی ہوں

لیکن سیر نہیں ہوتی

 

اے میری ماں! عشق نے میرے وجود کو

روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیا ہے

شاہ سائیں اپنے رویے میں Realist اور Romantic Idealist ہیں۔ وہ اپنی حقیقت نگاری سے عام دُکھی انسانوں کی دکھ بھری زندگیوں کی تصویر کشی کرتے ہیں اور ان کی دُکھ بھری زندگیوں کے وسیع کینوس پر اپنی Idealistic Romanticism کا ایک جہاں تخلیق کرتے ہیں۔ یہ جہان حُسن کا جہان ہے، عشق کا جہان ہے، خوابوں کا جہان ہے۔ شاہ سائیں کے اس جہاں میں شبنم میں بھیگی ہوئی چاندنی ہے۔ کنول کے ایسے کنوارے پھُول ہیں کہ جن پر بھنورے نہیں منڈلاتے اور ایسی کنواریاں ہیں جو خوشبوؤں سے اپنے کنوارے تن دھوتی ہیں اور خوشبوؤں میں رچے ہوئے جوڑے گھاٹ کی پانی میں دھوتی ہیں تو بھنورے گھاٹ کے پانی کی مہک سے مَست ہو کر اس پانی میں آن گرتے ہیں۔

جن گھاٹون پرں کنواریاں

اپنے چندن میں رچے ہوئے جوڑے دھوتی ہیں

تو بچارے بھنورے دھوکہ کھا کر گھاٹ کے پانی میں آن گرتے ہیں

کنارے کے پاس بھنور اس طرح ہیں جیسے کوئی

پانی کو بلو رہا ہو

تُونے اتنے دُکھ سہے ہیں اور پھر بھی سو رہا ہے!

کسی مقصد کے لئے میدان جنگ میں کُود پڑنے والوں کے لئے کہتے ہیں:

اس کالی گھٹا کے نیچے وہ لڑ رہے تھے کہ میں

ان سے جُدا ہوئی

ان کے ہاتھوں میں تلواروں کے کالے قبضے تھے

اور سرکش گھوڑے ان کی رانوں کے نیچے تھے

اے ماں! میری ان سے شناسائی ہوئی جن کے

لئےپیچھے قدم ہٹانا طعنہ ہے

میں کیسے کہوں کہ وہ میدان سے بھاگ گیا

تم اسے مارو تو مجھے یقین ائے کہ یہ ہی میرا محبوب ہے

اُس کی پیٹھ میں زخم ہوں گے تو میں لاج سے مرجاؤں گی

اور اگر اس کے چہرے میں زخم ہوں گے تو ان زخموں کو

ٹکور کرتےہوئے میں کتنی حسین لگوں گی۔

اے میرے محبوب تو جنگ میں مرجائے اور

میں تیرے لئے روؤں

زندگی دو چار دن ہے لیکن طعنے ہمیشہ رہتے ہیں

جنگ کے میدان میں جو زرہ پہنتا ہے اس میں

ابھی زندگی کی ہوس ہے

سرفروش تو وہ ہے جو ہر وقت جنگ چاہتا ہے

یہ ہے لطیف سائیں کی شاعری اور یہ ہے لطیف سائیں کا وحدت الوجود!

کافی اور وائی:

کافی اور وائی سندھی شاعری کی دو الگ الگ صنفیں ہیں۔  لیکن کچھ لوگ غلطی سے شاہ سائیں کی وائی کو کافی کہتے ہیں۔ کچھ تو شاہ سائیں کو کافی کا موجد بھی کہتے ہیں۔ لیکن تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ کافی کی صنف شاہ سائیں سے دو سال پہلےبھی سندھ میں رائج تھی۔ تاریخ میں دو بزرگوں لاڈ جیو برھانپوری اور میر فاضل بکھری کے نام آتے ہیں۔ جنہوں نے اس دَور میں سندھی میں کافیاں کہیں۔

لاڈ جیو ہمایوں کے دورِ حکومت میں سندھ سے ہجرت کر کے برہانپور گئے۔ جہاں ان کی کافیاں صاحب دل لوگوں کی محفلوں میں گائی جاتی تھیں۔ لاڈ جیو 1007ہجری میں فوت ہوئے۔

اکبر کے دورِ حکومت میں میر معصوم بکھری کے بھائی میر فاضل گذرے ہیں جو سندھی زبان میں کہی ہوئی کافیاں گاتے تھے۔

کافی:

سندھی محققین نے اس بات پر بڑی تحقیق کی ہے کہ شاعری میں اس صنف کو کافی کیوں کہا جاتا ہے۔

کچھ محققوں کا کہنا ہے کہ عربی زبان کے لفظ کفہ سے سندھی شاعری کی اس صنف کو کافی کہا گیا ہے۔ کفہ دف کی اس لکڑی کو کہتے ہیں جس میں گھنگھرو بندھے ہوتے ہیں۔ دف پر جو کلام گایا گیا اسے کافی کہا گیا اور بعد میں شاعری کی ایک خاص صنف کے لئے یہ نام مخصوص ہو کر رہ گیا۔

عربی میں استکفوا  خیرات کو کہتے ہیں۔ ان میں گداگروں کی سُریلی صداؤں کی جانب اشارہ ہے کہ گدا گروں کی ان سُریلی صداؤں نے بعد میں کافی کی صورت اختیار کر لی۔

ترازو کے دونوں پلڑے برابر ہوں تو ان کو کفی کہا جاتا ہے جس کا اشتقاق کفوا ہے شعر کے دو مصرعوں کو ترازو کے دو  پلڑوں کے برابر ہونے کی نسبت سے شاعری کی یہ صنف کافی کہلائی لیکن کافی کی استھائی یا مُکھڑے کے مصرعے غزل کے مصرعوں کی طرح ایک دوسرے کے برابر نہیں ہوتے۔ بلکہ کافی کے استھائی مستزاد کی طرح ڈیوڑھی اور سوائی بھی ہوتی ہے۔ کچھ کافیوں میں تو تین تین اور چار چار مصرعے بھی ہوتے ہیں۔

ولیوں اور بزرگوں کو درگاہوں اور مزاروں کے قریب حجرے بنے ہوئے ہوتے ہیں جن میں سماع کی محفلیں ہوتی ہیں۔ ان حجروں کو کافی کہا جاتا ہے اور اس طرح ان کافیوں میں گائے جانے والے عارفانہ کلام کو کافی کہا گیا۔

کافی پوری یا مکملّ کو بھی کہتے ہیں" لہٰذا یہ بھی کہا گیا ہے کہ چونکہ کافی فن اور مضمون کے لحاظ سے مکملّ اور پوری ہوتی ہے۔ اس لئے اسے کافی کہا گیا ہے۔

کچھ محققین کی رائے ہے کہ سنگیت کے کافی ٹھاٹھ میں گائے جانے والی شاعری کی صنف کو کافی کہا گیا بعد میں وہ دوسرے راگوں میں بھی گائی جانے لگی۔

پنڈت سارنگ نے اپنی کتاب "رتناکر" میں ہرپا میل راگ کا ذکر کیا ہے۔ خسرو نے غالباَ ہرپا میل راگ ہی سے سمپورن راگ ایجاد کیا جس کی اروہی اور امروہی میں ساتوں سُر لگتے ہیں۔ اسی نسبت سے اسے کافی یعنی پوری، مکملّ اور پورن کہا گیا۔

وائی:

یہ بات ابھی تحقیق طلب ہے کہ شاہ سائیں کی وائی کو وائی کیوں کہا گیا۔ اور اس کے معنی کیا ہیں۔

سندھی میں وائی بات کو کہتے ہیں۔ مثلاً اگر کہنا ہو کہ بُری بات منہ سے نہ نکال تو سندھی میں کہیں گے کہ ایسی وائی مُنہ سے نہ نکال۔ سندھی میں وائے وائے کرنا کے معنے ہیں شور مچانا، چیخ پکار کرنا۔ شاہ سائیں کی درگاہ پر جو راگ گایا جاتا ہے اسے سُن کر یُوں لگتا ہے جیسے کوئی فریاد کر رہا ہوں ممکن ہے اسی نسبت سے شاعری کی اس صنف کو وائی کہا گیا ہو۔

سندھی کے لوک گیت خاص طور پر شادی بیاہ کے گیت جن کو سندھی میں سہرو کہا جاتا ہے وہ ہئیت کے اعتبار سی وائی سی ملتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اسی لوک گیت نے آگے چل کر وائی کی صورت اختیار کی ہو۔

موضوع اور مواد کے لحاظ سے کافی اور وائی دونوں ایک ہیں۔ لیکن دونوں کی ہئیت اور فارم میں فرق ہے۔ وائی کی استھائی یا مکھڑا دو ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہوتا ہی۔ پہلے ٹکڑے میں قافیہ ہوا ہے اور دوسرا ٹکڑا بغیر قافیہ کے ہوتا ہے اور استھائی کا دوسرا بے قافیہ ٹکڑا ہر مصرعہ کے بعد دہرایا جاتا ہے۔ جَیسے اس وائی میں ہے۔

آئے میگھ ملہار، میں رنگوں چنریا دھانی

بدرا اپنے تن پر ڈھانپے، برسن لاگا یار

میں رنگوں چنریا دھانی

شاہ سائیں کا ساز دنبورہ

شاہ سائیں سے پہلے سندھ میں سماع ہوتا تھا۔ سماع میں کوئی ساز استعمال نہیں ہوتا تھا۔ شاہ سائیں نے سماع میں ایک ساز بھی استعمال کیا جسے سندھی میں دنبورہ کہتے ہیں۔ دنبورہ اصل میں طنبورا ساز ہے۔ جس میں چار تار ہوتے ہیں۔ شاہ سائیں نے اس ساز میں ایک تار کا اضافہ کیا۔

عرب، ایران موسیقی میں طنبورا کے چار تاروں کے نام یہ ہیں:

۱۔ زیر

۲۔ مثنیٰ

۳۔ مثلث

۴۔ بم

شاہ سائیں نے مثنیٰ یعنی دوہری آواز والے ایک تار کی جگہ دو تار رکھے۔ اور اسی نسبت سے ان تاروں کو جاڑیوں یعنی جڑواں تار کہا گیا۔ دنبورہ کے دائیں سے بائیں تاروں کے ترتیب وار نام یہ ہیں:

۱۔ گھور: یہ تارسپنک کی ساکی آواز دیتا ہے۔

۳-۲۔ جاڑیوں: یہ دونوں تار درمیانی پستک کے ساکی آواز دیتے ہیں۔

۴۔ یہ تار ٹیپ کے پستک کی ساکی آواز دیتا ہے۔

۵۔ زبان: یہ تار تال کے طور پر بجتا ہے اور راگ کو دہراتا ہے۔

دنبورہ بجانے کے طریقے

۱۔ چھیڑ: تار کو چھیڑنا اور بغیر کسی تال کے صرف سُر دینا۔

۲۔ ڈھیڈی: تین ضربیں لگانا یہ ذکر کا تال ہے۔

۳۔  دو تالی:  اس تال میں چار ضربیں لگائی جاتی ہیں۔

تندوجائن

کسی راگ کو شروع کرنے سے پہلے تار بجا کر یعنی زبان والے تار کو چھیڑ کر اس راگ کو ظاہر کرنا۔

چھیڑو جائن

یہ ایک راگ کے اختتام اور دوسرے راگ کے آغاز کے درمیان کے وقفے میں بجائی جاتی ہے۔

شاہ سائیں کے راگ

شاہ سائیں نے اپنے کلام کو مختلف سُروں یعنی راگوں میں ترتیب دیا۔ شاہ سائیں علمِ موسیقی کے بہت بڑے ماہر تھی۔ آپ نے سندھ کی قدیم موسیقی کے راگوں، سندھ اور ہند کے مشترکہ راگوں، عرب، ایران، موسیقی کے مروجہ راگوں کے ملاپ سے سندھی راگوں کے ایک نئے نظام کو جنم دیا۔

سندھی کی لوک داستانوں مثلاً عمر ماروی، مومل رانو، لِیلا چنیسر وغیرہ کو جس مقامی انداز میں گایا جاتا تھا آپ نے ان کو مستقل راگوں کا روپ دیا۔ اور سندھ کے پیشہ ور اور محنت کش کام کاج کرتے وقت جو سُر الاپتے تھی یا جو گیت گاتے تھے آپ نے اُن کو بھی مستقل راگوں کی شکل دی۔ مثلاً چرخہ کاتنے والی خواتین چرخہ کاتتے وقت جو گیت گنگناتی تھیں ان کو آپ نے "سُر کاپائتی" کی شکل دی۔ اسی طرح کشتی چلاتے وقت ملّاح اور محنت کرتے وقت محنت کش جو سُر الاپتے تھے ان کو سُر سامونڈی اور سُر کھاہوڑی راگوں کی شکلیں دیں۔

شاہ سائیں کا رسالہ اور سُروں کی ترتیب

شاہ سائیں کے مجموعٔہ کلام کو "رسالہ" کہا جاتا ہے۔ رسالے کی ترتیب مختلف راگوں کے ناموں، لوک کہانیوں کے عنوانات اور مختلف لوگوں کے پیشوں کی نسبت سے مختلف سُروں یعنی راگوں میں کی گئی ہی۔ مثلاً سُر کلیان اور ایمن کلیان راگوں کے نام ہیں۔ سُر مومل رانو اور سُر مارئی لوک داستانوں کے نام ہیں۔ اور سرُ کاپائتی اور کھاہوڑی کاتنے والیوں اور محنت کشوں کے پیشوں کے ناموں کی نسبت سے رکھے گئے ہیں۔ ہر سُر کے مختلف باب ہیں اور ہر باب کو داستان کہا گیا ہے۔ ہر داستان بیتوں پر مشتمل ہے اور ہر داستان کے آخر میں ایک، دو، اور کسی داستان میں تین اور چار وائیاں ہیں۔ یہ وائیاں گویا اس داستان کا نچوڑ ہیں۔ رسالے کے سُروں کی ترتیب اس طرح ہے:

۱۔ سر کلیان

دیپک راگ کے آٹھ بیٹوں میں سے ایک ہے۔ کلیان کے نفطی معنی ہیں سُکھ یا سکون لطیف سائیں کے سُر کلیان کی تین داستانیں (باب) ہیں۔

پہلی داستان میں اکیس بیت اور ایک وائی ہے۔

دوسری داستان میں بتیس بیت اور ایک وائی ہے۔

تیسری داستان میں پہلی داستان کی طرح اکیس بیت اور ایک وائی ہی۔ اس طرح سُر کلیان میں ۷۴ بیت اور تین وائیاں ہیں۔

۲۔ سُر ایمن کلیان

کلیان کی پانچ قسمیں ہیں:

۱۔ شام کلیان

۲۔ ایمن کلیان

۳۔ حمیر کلیان

۴۔ بھوپالی کلیان

۵۔ کیدار کیلان

ایمن کے معنی ہیں روکنا یا بس میں رکھنا۔

شاہ سائیں کے سُر ایمن کلیان کی آتھ داستانیں ہیں:

پہلی داستان میں ۲۰ بیت اور ایک وائی ہے۔

دوسری داستان میں ۱۹ بیت اور ایک وائی ہے۔

تیسری داستان میں ۲۷ بیت اور ایک وائی ہے۔

چوتھی داستان میں ۲۳ بیت اور ایک وائی ہے۔

پانچویں داستان میں ۳۵ بیت اور دو وائیاں ہیں۔

چھٹی داستان میں ۱۹ بیت اور ایک وائی ہے۔

ساتویں داستان میں ۱۴ بیت اور ایک وائی ہے۔

آٹھویں داستان میں ۲۴ بیت اور ایک وائی ہے۔

سُر کھنبھات

کھنبھات کو کماچ بھی کہتے ہیں، کہتے ہیں کہ اس راگ کو کھنبھات اس لئے کہتے ہیں کہ اسے گجرات کے شہر کھنبھات کے ایک گویے نے ایجاد کیا تھا۔ شاہ سائیں کے سُر کھنبھات کی دو داستانیں ہیں:

پہلی داستان میں ۲۴بیت اور تین وائیاں ہیں۔

دوسری داستان میں ۴۸ بیت اور تین وائیاں ہیں۔

سُر سریراگ

یہ راگ چھ اہم راگوں میں سے ایک ہے۔ وہ راگ یہ ہیں:

۱۔ بھیرو

۲۔ ہنڈول

۳۔ میگھ

۴ سریراگ

۵۔ دیپک

۴۔ مالکوس

شاہ سائیں کا سُر سریراگ چھ داستانوں پر مشتمل ہے۔

پہلی داستان میں ۱۵ بیت اور دو وائیاں ہیں۔

دوسری داستان میں ۱۹ بیت اور ایک وائی ہے۔

تیسری دستان میں ۴۱ بیت اور ایک وائی ہے۔

چوتھی داستان میں ۱۹ بیت اور ایک وائی ہے۔

پانچویں داستان میں ۱۴ بیت اور ایک وائی ہے۔

چھٹی داستان میں ۱۴ بیت اور ایک وائی ہے۔

سُر سامونڈی

سندھی میں سمنڈ کے معنی سمندر کے ہیں اور سامونڈی کا مطلب ہے سمندر سے تعلق رکھنے والے۔ کسی زمانے میں سندھ کی بندرگاہوں سے بنجارے سامان کی کشتیاں بھر کر کاروبار کے سلسلے میں دُور دراز کے ملکوں میں جاتے تھے۔ ان کی بیویاں اور محبوبائیں ان کے فراق میں تڑپتی تھیں۔ یہ ہی اس سُر کا موضوع ہے اور اس موضوع کی نسبت سے اس سر کا نام سامونڈی رکھا گیا ہی۔

سامونڈی کسی راگ کا نام نہیں لیکن کہتے ہیں کہ ملاح کشتیاں چلاتے ہوئے جوگیت گنگناتے تھے انہیں شاہ سائیں نے باقاعدہ راگ کی صورت دی۔

اس سُر کی تین داستانیں ہیں:

پہلی داستان میں ۳۸ بیت اور تین وائیاں ہیں۔

دوسری داستان میں ۲۳ بیت اور تین وائیاں ہیں۔

تیسری داستان میں ۱۷ بیت اور دو وائیاں ہیں۔

سُر سوہنی

یہ راگنی دیپک راگ کی پانچ بیویوں میں سے ایک ہی۔ اس کا اصل نام "تو ڈی" ہے۔

شاہ سائیں کا سُر سوہنی سوہنی میہار کی لوک داستان پر مشتمل ہے۔

اس سُر کی نو داستانیں ہیں اور دسویں داستان متفّرقہ ابیات پر مشتمل ہے۔

پہلی داستان میں میں ۳۴ بیت اور ایک وائی ہے۔

دوسری داستان میں ۱۲ بیت اور ایک وائی ہے۔

تیسری داستان میں ۲۳ بیت اور ایک وائی ہے۔

چوتھی داستان میں ۲۴ بیت اور ایک وائی ہے۔

پانچویں داستان میں ۲۳ بیت اور ایک وائی ہے۔

چھٹی داستان میں ۲۵ بیت اور ایک وائی ہے۔

ساتویں داستان میں ۱۴ بیت اور ایک وائی ہے۔

آٹھویں داستان میں ۲۳ بیت اور ایک وائی ہے۔

نویں داستان میں ۲۴ بیت اور ایک وائی ہے۔

ابیات متفّرقہ میں ۱۴ بیت اور ایک وائی ہے۔

سُر سسّی آبری

اس سُر کا موضوع سندھی کی مشہور لوک داستان "سسّی پنوں" ہے۔ آبری سندھی کے ابھری لفظ کی بگڑی ہوئی صورت ہے جس کے معنی کمزور کے ہیں۔ اس سُر میں سسّی کا دُکھ بیان کیا گیا ہی۔

اس داستان کی گیارہ داستانیں ہیں۔ بارھویں داستان ابیاتِ متفرّقہ پر مشتمل ہے۔

پہلی داستان میں ۱۴ بیت اور ایک وائی۔

دوسری داستان میں ۱۰ بیت اور ایک وائی۔

تیسری داستان میں ۱۸ بیت اور ایک وائی۔

چوتھی داستان میں ۲۴ بیت اور ایک وائی۔

پانچویں داستان میں ۱۹ بیت اور ایک وائی۔

چھٹی داستان میں ۱۱ بیت اور ایک وائی۔

ساتویں داستان میں ۱۹ بیت اور ایک وائی۔

آٹھویں داستان میں ۱۴ بیت اور ایک وائی۔

نویں داستان میں ۱۴ بیت اور ایک وائی۔

دسویں داستان میں ۱۴ بیت اور ایک وائی۔

گیارھویں داستان میں ۱۱ بیت اور ایک وائی۔

ابیاتِ متفّرقہ ۱۰ بیت بیت اور ۱۰ وائی۔

سُر معذوری

معذور سندھی میں کمزور کو کہتے ہیں۔ اس داستان میں بھی سسّی کے ضُعف اور پنّوں کی تلاش اور تڑپ کا ذکر ہے۔

اِس سُر کی سات داستانیں ہیں:

پہلی داستان میں ۱۴ بیت اور ایک وائی۔

دوسری داستان میں ۱۲ بیت اور ایک وائی۔

تیسری داستان میں ۱۱ بیت اور ایک وائی۔

چوتھی داستان میں ۱۲ بیت اور ایک وائی۔

پانچویں داستان میں ۱۴ بیت اور ایک وائی۔

چھٹی داستان میں ۲۱ بیت اور ایک وائی۔

ساتویں داستان میں ۲۲ بیت اور ایک وائی۔

سُر دیسی

دیسی ایک راگنی کا نام ہے اور یہ دیپک کی پانچ بیویوں میں سے ایک ہے۔ اِس سُر میں بھی سسّی کا دُکھ اور درد بیان کیا گیا ہی۔ اس سُر کی سات داستانیں ہیں:

پہلی داستان میں ۲۷ بیت اور ایک وائی۔

دوسری داستان ۱۴ بیت اور ایک وائی۔

تیسری داستان ۲۲ بیت اور ایک وائی۔

چوتھی داستان میں ۱۹ بیت اور ایک وائی۔

پانچویں داستان میں ۱۲ بیت اور ایک وائی۔

چھٹی داستان میں ۱۴ بیت اور دو وائیاں۔

ساتویں داستان میں ۱۴ بیت اور ۴ وائیاں۔

سُر کوہیاری

کوہیاری کے لفظی معنی پہاڑی کے ہیں۔ اِس سُر میں سسّی کے دشت و جبل میں بھٹکنے کا ذکر ہے اور اسی نسبت سے اس سُر کا نام کوہیاری رکھا گیا ہے۔ اِس سُر کی چھ داستانیں ہیں:

پہلی داستان میں ۱۳ بیت اور ایک وائی۔

دوسری داستان میں ۲۲ بیت اور ایک وائی۔

تیسری داستان میں ۱۱ بیت اور ایک وائی۔

چوتھی داستا ن میں ۱۲ بیت اور ایک وائی۔

پانچویں داستان میں ۱۱ بیت اور ایک وائی۔

چھٹی داستان میں ۱۰ بیت اور ایک وائی۔

سُر حسینی

یہ بھی ایک راگنی کا نام ہے۔ اس راگنی میں زیادہ تر مرثیے گائے جاتے ہیں۔ شاہ سائیں نے اِس سُر میں سسّی کے دُکھوں اور اس کے دشت میں سفر کی صعوبتوں کو بڑے مؤثر انداز میں بیان کیا ہے۔ اور اسی نسبت سے اس سُر کا نام حسینی رکھا ہے:

اس سر کی بارہ داستانیں ہیں:

پہلی داستان میں ۱۴ بیت اور ایک وائی۔

دوسری داستان میں ۱۸ بیت بیت اور ایک وائی۔

تیسری داستان میں ۱۱ بیت اور ایک وائی۔

چوتھی داستان میں ۱۲ بیت اور دو وائیاں۔

پانچویں داستان میں ۱۲ بیت اور دو وائیاں۔

چھٹی داستان میں ۲۴ بیت اور ایک وائی۔

ساتویں داستان میں ۱۴ بیت اور ایک وائی۔

آٹھویں داستان میں ۱۸ بیت اور ایک وائی۔

نویں داستان میں ۲۳ بیت اور ایک وائی۔

دسویں داستان میں ۲۹ بیت اور دو وائیاں۔

گیارھویں داستان میں ۱۹ بیت اور تین وائیاں۔

بارھوین داستان میں ۴۹ بیت اور ایک وائی۔

لِیلا چنیسر

اِس سُر کا تعلق سندھ کی مشہور لوک داستان "لِیلا چنیسر" سے ہے اور اسی داستان کی نسبت اس سے اس سُر کا نام رکھا گیا ہے۔ اِس سُر کی تین داستانیں ہیں:

پہلی داستان میں ۱۸ بیت اور ایک وائی۔

دوسری داستان میں ۲۲ بیت اور ایک وائی۔

تیسری داستان میں ۱۵ بیت اور ایک وائی۔

سُر مومل رانو

مومل رانو سندھ کی مشہور لوک داستان ہے۔ اس داستان کی نسبت سے ا س سُر کا نام رکھا گیا ہے۔ اس سُر میں نو داستانیں ہیں۔

پہلی داستان میں ۹ بیت اور ایک وائی۔

دوسری داستان میں ۱۵ بیت اور ایک وائی۔

تیسری داستان میں ۲۲ بیت اور ایک وائی۔

چوتھی داستان میں ۱۲ بیت اور ایک وائی۔

پانچویں داستان میں ۱۵ بیت اور ایک وائی۔

چھٹی داستان میں ۱۷ بیت اور ایک وائی۔

ساتویں داستان میں ۱۸ بیت اور ایک وائی۔

آٹھویں داستان میں ۲۵ بیت اور ایک وائی۔

نویں داستان میں ۷ بیت اور ایک وائی۔

سُر مارئی

اس داستان کا تعلق بھی مشہور لوک داستان عمر ماروی سے ہے اور اسی لئے اس سُر کا نام مارئی رکھا گیا ہے۔ اس سُر کی دس داستانیں ہیں۔ گیارہویں داستان متفّرقہ ابیات پر مشتمل ہے۔

پہلی داستان میں ۱۴ بیت اور ایک وائی۔

دوسری داستان میں ۱۲ بیت اور ایک وائی۔

تیسری داستان میں ۴۱ بیت اور ایک وائی۔

چوتھی داستان میں ۱۸ بیت اور ایک وائی۔

پانچویں داستان میں ۱۴ بیت اور ایک وائی۔

چھٹی داستان میں ۲۱ بیت اور ایک وائی۔

ساتویں داستان میں ۱۴ بیت اور ایک وائی۔

آٹھویں داستان میں ۱۹ بیت اور ایک وائی۔

نویں داستان میں ۱۴ بیت اور ایک وائی۔

دسویں داستان میں ۱۸ بیت اور ایک وائی۔

گیارھویں داستان میں ۹ بیت اور ایک وائی۔

ابیاتِ متفّرقہ میں ۵۲۴بیت اور ایک وائی۔

سُر کاموڈ

کاموڈ ایک راگنی کا نام ہے جو دیپک راگ کی پانچ بیویوں میں سے ایک ہے۔ لطیف سائیں کے سُر کاموڈ میں سندھ کی مشہور رومانی داستان "نوری جام تماچی" کو بیان کیا گیا ہی۔ سارے رسالہ میں یہ ہی ایک ایسا سُر ہے جس میں فراق کے دُکھ کے بجائے وصل کی مسّرتیں ہیں۔

سُر کاموڈ کی دو داستانیں ہیں:

پہلی داستان ۲۴ بیت اور ایک وائی۔

دوسری داستان ۱۳ بیت اور ایک وائی۔

سُر گھاتو

گھاتو لفظ کے معنی ہیں مارنے والا یا شکار کرنے والا۔ اس سُر کا پس منظر بھی مشہور لوک داستان "مورڑو مانگر مچھ" ہے۔ (مورڑو اور مگر مچھ) مگر مچھ ملاحوں کو مارتا تھا۔ اور مورڑو نے مگر مچھ کو مارا تھا۔ اسی لئے اس سُر کا نام گھاتو یعنی مارنے والا رکھا گیا ہے۔

اس سُر کی ایک داستان ہے جس میں ۱۷ بیت اور ایک وائی ہے۔

سُر سورٹھ

سورٹھ راگنی بھیرو راگ کے بیٹے کی تیسری بیوی ہے۔ کہتے ہیں کہ اس راگنی کی اصل نام سوراشٹر تھا۔ یہ راگنی سوراشٹر کے علاقے میں گائی جاتی تھی اور اسی نسبت سے سوراشٹر کہا جاتا تھا۔

لطیف سائیں کے سُر سورٹھ میں سندھی کی مشہور لوک داستان "سورٹھ رائے ڈیاچ" بیان کی گئی ہے۔ رائے ڈیاچ گرنار کا حاکم تھا۔ موسیقی کا عاشق تھا اور بہت بڑا سخی تھا۔ بیجل نامی موسیقار نے اپنے سُرندے سے  ڈیاچ کا سر کاٹ لیا۔ سورٹھ ڈیاچ کی بیوی تھی اور اسی کے نام کی نسبت سے اس سُر کو سُر سورٹھ کہا گیا ہے۔

سُر سورٹھ کی چار داستانیں ہیں۔

پہلی داستان میں ۱۳ بیت اور ایک وائی۔

دوسری داستان میں ۱۵ بیت اور ایک وائی۔

تیسری داستان میں ۲۰ بیت اور ایک وائی۔

چوتھی داستان میں ۱۴ بیت اور ایک وائی۔

سُر کیڈارو

کیڈارو راگنی بھی دیپک راگ کی پانچ بیویوں میں سے ایک ہے اور سمپورن راگنی ہے کیڈارو سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنے ہیں جنگ کا میدان۔

سُر کیڈارو میں لطیف سائیں نے امام حسین رضہ کی شہادت کے مرثیے لکھے ہیں۔ اس سُر کی چھ داستانیں ہیں۔

پہلی داستان میں ۱۱ بیت اور ایک وائی۔

دوسری داستان میں ۱۰ بیت اور ایک وائی۔

تیسری داستان میں ۱۴ بیت اور ایک وائی۔

چوتھی داستان میں ۱۱ بیت اور ایک وائی۔

پانچویں داستان میں ۱۲ بیت اور ایک وائی۔

چھٹی داستان میں ۱۵ بیت اور ایک وائی۔

سُر سارنگ

سارنگ راگ میگھ راگ کے آٹھ بیٹوں میں سے ایک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سارنگ ایک پرندے کا نام ہے جس کے آلاپ سے اس راگ کو ترتیب دیا گیا ہے۔

شاہ سائیں کے سُر سارنگ میں ریگستان میں بسنے والے لوگوں کی ان خوشیوں کو بیان کیا گیا ہے جو ساون کی بارش سے انہیں میسّر ہوتی ہیں۔ سُر سارنگ کی چار داستانیں ہیں۔

پہلی داستان میں ۳۴ بیت اور ایک وائی۔

دوسری داستان میں ۸ بیت اور ایک وائی۔

تیسری داستان میں ۱۳ بیت اور ایک وائی۔

چوتھی داستان میں ۱۹ بیت اور ایک وائی۔

سُر آسا

آسا راگنی کا نام ہے جو رات کے پچھلے پہر گائی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک خوبصورت شہزادی تھی جو رات کے پہچلے پہر عبادت کرتے وقت دعائیہ گیت گاتی تھی۔ اس راگنی کا نام شہزادی کے نام پر پڑ گیا۔

لطیف سائیں کے سُر آسا میں بھی دعائیہ بیت ہیں۔ اس سُر کی چار داستانیں ہیں۔

پہلی داستان میں ۱۷ بیت اور ایک وائی۔

دوسری داستان میں ۲۳ بیت اور ایک وائی۔

تیسری داستان میں ۳۱ بیت اور تین وائیاں۔

چوتھی داستان میں ۲۴ بیت اور ایک وائی۔

سُر رِپ

رِپ لفظ کے معنیٰ ہیں آفت یا مصیبت، اس سُر میں فراق کے دُکھ کو بیان کیا گیا ہے فراق سب سے بڑی آفت اور مصیبت ہے۔اس لئے اس سُر کا نام رِپ رکھا گیا ہے۔ اس سُر کی دو داستانیں ہیں۔

پہلی داستان میں ۲۷ بیت اور ایک وائی۔

دوسری داستان میں ۱۷ بیت اور ایک وائی۔

سُر کھاہوڑی

کھاہوڑی کے معنے ہیں "پہاڑوں میں رزاق ڈھونڈھنے والے" اس سُر میں ان جوگیوں اور بیراگیوں کا ذکر ہے جو پہاڑوں میں اپنے خدا کو ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ اس سُر کی تین داستانیں ہیں۔

پہلی داستان میں ۲۷ بیت اور ایک وائی۔

دوسری داستان میں ۱۱ بیت اور دو وائیاں۔

تیسری داستان میں ۱۹ بیت اور دو وائیاں۔

سُر بردو سندھی

بردو ایک راگنی کا نام ہے جسے شاہ سائیں نے سندھی رنگ دے کر بردو سندھی نام رکھا ہے۔ اس سُر کی تین داستانیں ہیں۔

پہلی داستان میں ۲۳ بیت اور ایک وائی۔

دوسری داستان میں ۱۴ بیت اور دو وائیاں۔

تیسری داستان میں ۱۰ بیت اور دو وائیاں۔

نئون صفحو -- ڪتاب جو ٽائيٽل صفحو --گذريل صفحو

ٻيا صفحا 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30

هوم پيج - - لائبريري ڪئٽلاگ

© Copy Right 2007
Sindhi Adabi Board (Jamshoro),
Ph: 022-2633679 Email: bookinfo@sindhiadabiboard.org