سيڪشن: ادب

ڪتاب: مراد صاحب (اينٿالاجي)

باب:

صفحو:25 

رطلِ گراں

  محمود

 

کہہ رہا ہے شور دریا سے سمندر کا سکوت-

جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے

        میں شور دریا اور جس کے بارے میں میں اظہار خیال کر رہا ہوں وہ سمندر کا سکوت۔ اس سکوت کو توڑنے کے لئے جتنی علمیت اور ظرف کی ضرورت ہے وہ مجھ میں نہیں، لیکن ریڈیو میں ساتھی کی حیثیت سے کام کرنے کے دوران مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر جو تصویر میرے تخیل میں ابھرتی ہے اس کے چند نقوش پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔

        مراد علی مرزا مرحوم کے بارے میں اجمالاً  اتنا عرض ہے کہ وہ بڑے کثیرالمطالعہ شخص تھے۔ انگریزی، اردو اور سندھی زبانوں کے ہر اضاف پر ان کا مطالعہ بڑا گہرا تھا۔ جبکہ فارسی ادب کے بارے میں بھی دوسری زبانوں کے حوالے سے بہت کچھ معلومات رکھتے تھے۔ کثیرالمطالعہ کے علاوہ وہ اعلیٰ پائے کے تخلیقکا راور بہترین مترجم بھی تھے۔ انتہائی کم گو اور گوشہ شرنشین تھے۔ دفتری اوقات مں اگر کوئی کام نہ ہوتا تو کوئی نہ کوئی کتاب پڑہتے تھے۔ نہایت حلیم الطبع تھے۔ مزاج میں گرمی بالکل نہ تھی اس کا اندازہ یوں بھی کیا جا سکتا ہے کہ مئی جون کی شدید گرمی میں بھی پنکھا نہایت سست رفتاری سے چلاتے تھے یہ الگ بات  ہے کہ اس سے مجھے تکلیف ہوتی تھی جس کو کم کرنے کے لئے میں اکثر کسی اور کے کمرے میں چلا جاتا تھا۔ گرمی، سردی ، برسات کوئی موسم ہو وہ گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر پیدل آیا جایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آخر دم تک مثالی صحت کے حامل تھے۔ دیکھنے میں وہ دبلے پتلے ضرور تھے لیکن صحت مند تھے۔

        اتنے کثیرالمطالعہ ہونے کے باوجود یوں نظر آتے تھے جیسے یہ کچھ جانتے ہی نہیں جبکہ ایک کمرے میں ساتھ بیٹھنے کی وجہ سے میں چشم دید ہوں کہ پروفیسر حضرات جب کسی پروگرام کے سلسلے میں تشریف لاتے تو مراد صاحب مرحوم سے جو گفتگو ہوتی تھی وہ قابلِ شیند ہوتی تھی۔ اس وقت اندازہ ہوتا تھا کہ مراد صاحب کا مطالعہ کتنا عمیق ہے۔ لیکن بظاہر وہ اپنے چہرے پر کم علمی کا خول چڑھائے رکھتے تھے۔ مگر ہم جیسے لوگ اس خول کے پیچھے جو اصل چہرہ تھا اس سے بخوبی واقف تھے اور اکثر میں ان سے مختلف موضوعات پر سوالات کرتا تھا اور پھر جب وہ حوالہ جات سے میرے سوالات کے جوابات دیتے تھے تو اندازہ ہوتا تھا کہ یہ شخص کیا ہے۔ یہ الگ بات کہ مراد صاحب کے جوابات طویل نہیں جامع ہوتے تھے۔ اپنے مزاج کے اعتبار سے وہ طوالت پسند نہیں بلکہ جامع پسند تھے۔

        مراد صاحب مرحوم کے بارے میں تفصیل  سے کچھ کہنا مجھ جیسے کم علم کے بس کی بات نہیں بقول علامہ  اقبال :

سغیفہ چاہیئے اس بحر بے کراں کے لئے

        البتہ یہاں میں دو واقعات کا ذکر ضرور کروں گا جن میں سے ایک واقعہ کا تعلق براہ راست مجھ سے اور مراد صاحب سے ہے، جبکہ دوسرے کا تعلق نہ مجھ سے نہ مراد صاحب سے ہے۔ بلکہ ایک تیسرے شخص کا ہے۔

        یہ اس وقت کی بات ہے جب مراد صاحب کے پاس تقریروں، مذاکروں اور مباحثوں کے شعبے تھے اور میرے پاس ڈراموں کا شعبہ تھا۔ ریڈیو میں دو شعبے ایسے ہوتے ہیں جن میں فنکاروں وغیرہ کا جمگھٹا رہتا ہے۔ موسیقی اور ڈرامہ۔ چنانچہ میرے پاس ڈرامہ آرٹسٹوں کا مجمع رہتا تھا۔ جس سے شور شرابہ ہوتا تھا۔ جبکہ مراد صاحب کم گو اور گوشہ نشین تھے، لہٰذا ان کو یہ شور شرابہ پسند نہ تھا۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے کبھی مجھ سے اس کی شکایت بھی نہیں کی۔

        البتہ ایک دن ایسا ہوا کہ نائب قاصد نے آکر مجھ سے کہا کہ "آپ کو بڑے صاحب یاد کررہے ہیں"۔  اس وقت بدر عالم صاحب مرحوم اسٹیشن ڈائریکٹر تھے۔ یہ مجھے کراچی سے جانتے تھے۔ جب میں 1964ع میں کراچی ریڈیو پر ڈیوٹی افسر تھا۔ بدر عالم صاحب اسی سال پبلک سروس کمیشن پاس کرکے براہ راست پروگرام آرگنائیزر کی حیثیت سے ریڈیو میں آئے تھے۔ یہ پروگرام پروڈیوسر کبھی بھی نہیں رہے۔ یہی نہیں بلکہ اور  بہت سے لوگ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے مختلف حیثیتوں سے ریڈیو میں ملازم ہوئے جن میں عمر مہاجر مرحوم، سلیم گیلانی مرحوم، سجاد حیدر مرحوم، بدر عالم مرحوم، شکیل فاروقی، امر جلیل، عنایت بلوچ، منیر سومرو، قمر علی عباسی مرحوم اور شفیق پراچہ وغیرہ۔ ان میں کچھ پروگرام آرگنائزر کچھ اسسٹنٹ ریجنل ڈائریکٹر اور کچھ  لسنر ریسرچ آفیسر کی حیثیت سے آئے۔  خیر میں اسٹیشن ڈائریکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ بدر عالم صاحب نہایت دھیمی آواز میں گفتگو کرتے تھے۔ فرمایا "تشریف رکھئیے"۔ ذرا سے توقف کے   بعد گویا ہوئے اور کہا کہ مراد صاحب میرے پاس آئے تھے اور کہا کہ وہ آپ کے ساتھ کمرے میں نہیں بیٹھنا چاہتے لہٰذا ان کا کمرہ تبدیل کردیا جائے۔ تو یہ  بتائیے کیا معاملہ ہے۔ میں نے کہا صاحب مجھے معلوم نہیں اور نہ کبھی مراد صاحب نے مجھ سے کوئی شکایت کی۔ اب اگر انہوں نے یہ کہا ہے تو بہتر یہ ہے کہ ان کے بجائے آپ میرا کمرہ تبدیل کردیں۔ بدر صاحب نے فرمایا کیا ایسا ممکن نہیں کہ آپ دونوں ہی ساتھ بیٹھیں اور کسی کو کسی سے شکایت نہ ہو۔ میں نے کہا اگر آپ کا یہ حکم ہے تو میں کوشش کرتا ہوں کہ مراد صاحب کو شکایت نہ رہے

        چنانچہ میں نے پہلی فرصت میں آرٹسٹوں کو منع کیا کہ  کوئی میرے کمرے میں نہ آئے جس کسی آرٹسٹ کی ضرورت ہوگی میں خود بلوالوں گا۔ اب صورت حال یہ تھی کہ کمرے میں سناٹا رہنے لگا۔ میں بھی کمرے میں نہ  رہتا اور مراد صاحب تنہا کمرے میں رہتے۔ کوئی  ہفتہ دس دن بعد  نائب قاصد پھر میرے پاس آیا اور کہا کہ بڑے صاحب یاد کر رہے ہیں۔ میں ایس –ڈی کے کمرے میں حاضر ہوا۔ بدر صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا۔ تشریف رکھئیے۔ میں بیٹھ گیا۔ ارشاد ہوا مراد صاحب میرے پاس آئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ میں ان کا کمرہ تبدیل نہ کروں اور وہ آپ کے ساتھ ہی بیٹھنا چاہتے ہیں۔ تو یہ  بتائیے آپ نے کیا کیا۔ میں ہنس دیا اور تفصیل پیش کردی۔  بدر صاحب بولے مجھے یقین تھا کہ آپ اس مسئلے کا  حل نکال لیں گے۔ کیونکہ میں نے کراچی میں آپ کو کام کرتے دیکھا تھا۔ میں واپس کمرے میں آیا اور مراد صاحب سے گلہ کیا کہ اگر آپ کو مجھ سے شکایت تھی تو آپ مجھ سے فرماتے آپ نے بلاوجہ ایس-ڈی کو زحمت دی۔ میں اب آپ کے ساتھ خود نہیں بیٹھوں گا۔ مراد صاحب  بیچارے نہ صرف شرمندہ ہوئے بلکہ کہا کہ اب جب تک میں اور آپ اس اسٹیشن پر ہیں ہم ایک ہی کمرے میں بیٹھیں گے۔

        دوسرا واقعہ یوں ہے کہ ایک ڈرامہ آرٹسٹ تھے ان کے بیٹے کا داخلہ پبلک اسکول کے پرائمری سیکشن میں ہونا تھا۔ اس وقت پبلک اسکول کے پرنسپل حمید سندھی صاحب تھے۔ داخلے کے سلسلے میں حمید صاحب نے صاف انکار کردیا تھا۔ لڑکے کے والد نے دو تین آدمیوں سے سفارش بھی کروائی لیکن حمید صاحب اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ وہ آرٹسٹ میرے پاس آئے اور واقعہ بیان کیا۔ میں نے مراد صاحب سے گزارش کی کہ وہ حمید صاحب کو فون کردیں تو بندے کا کام ہو جائے گا۔ مراد صاحب  سفارش کے ہمیشہ مخالف تھے، کہنے لگے آپ فون کر دیں۔ میں نے کہا مراد صاحب –حمید صاحب آپ کے دوست ہیں، توسط سے میری سلام دعا ہے، میرے ان سے اتنے گہرے مراسم نہیں،  مراد صاحب بولے نہیں آپ فون کریں۔  بادل ناخواستہ میں نے حمید صاحب کو فون کیا ان کی کرم فرمائی کہ انہوں نے میری گذارش پر لڑکے کو داخلہ دے دیا۔ ڈرامہ آرٹسٹ دوسرے دن میرے پاس آیا اور میرا شکریہ ادا کرنے لگا۔ میں نے کہا کہ تم مراد صاحب کا شکریہ ادا کرو۔ مراد صاحب فوراً بولے نہیں نہیں میرا شکریہ کیوں۔ میں نے کہا آپ کی وجہ سے ہی حمید صاحب  سے میری یاد اللہ ہوئی۔ مراد صاحب بولے بات یہ نہیں ہے بلکہ آپ جس انداز سے بات کرتے ہیں میں نہیں کر سکتا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے مراد صاحب مرحوم بقول شاعر

نرم دم گفتگو کی چلتی پھرتی تصویر تھے

میں اپنے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر  بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ  مراد صاحب بڑی خوبیوں کے حامل تھے۔

        بر سبیل تذکرہ یہ بھی عرض کردوں کہ حیدرآباد ریڈیو میں وہ صرف ایک ڈرامہ آرٹسٹ پر عاشق تھے وہ بھی نظروں کی حد تک یعنی۔

میں نظر سے پی رہا تھا تو یہ دل نے بد دعا دی

ترا ہاتھ زندگی بھر  کبھی جام تک نہ پہنچے

        یہاں جام سے ڈرامہ آرٹسٹ کے جسم کو تشبیہ دی جا سکتی ہے اور یہی حقیقت ہے کہ پروڈیوسر ہوتے ہوئے بھی  مراد صاحب کا کوئی اسکینڈل نہیں بنا۔ اسکینڈل تو اس وقت بنتا ، جب ہاتھ جام کو چھولیتا۔ جبکہ وہاں معاملہ نظروں سے آگے نہ بڑھا۔ ریڈیو میں پروڈیوسر ہونے باوجود مراد صاحب نے بڑی  صاف ستھری زندگی گذاری۔ اس سے بڑی صفت میرے نزدیک کوئی اور ہو نہیں سکتی۔

        ایک اور بات بھی سن لیجئے کہ جس آرٹسٹ پر مراد صاحب بطور پروڈیوسر عاشق تھے اسی آرٹسٹ پر ایک پروگرام آرگنائیزر بھی عاشق تھے مگر وہ بھی نظروں کی ہی حد تک، لیکن ان پروگرام آرگنائیزر سے میرے ایسے مراسم تھے کہ جب وہ آرٹسٹ چلی جاتی تھی تو میں ان کے کمرے میں جاکر کہتا تھا کہ۔۔۔۔ صاحب کم از کم ایک ہفتے کا "راشن" تو ہوگیا ہوگا۔

اور ان کا مخصوص جملہ ہوتا تھا"بکواس مت کرو۔

نئون صفحو --  ڪتاب جو ٽائيٽل صفحو
ٻيا صفحا 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30
هوم پيج - - لائبريري ڪئٽلاگ

© Copy Right 2007
Sindhi Adabi Board (Jamshoro),
Ph: 022-2633679 Email: bookinfo@sindhiadabiboard.org